https://www.highrevenuenetwork.com/yn6if2b2vi?key=3baa9b1915fea6b70c39fb465ca5cd9e | آپ کی اردو

جمعہ، 16 جون، 2023

چاند

0 $type={blogger}

 



چاند

 

میرے ویرانے سے کوسوں دور ہے تیرا وطن

ہے مگر دریائے دل تیری کشش سے موجزن

 

قصد کس محفل کا ہے؟ آتا ہے کس محفل سے تو؟

زردرو شاید ہوا رنج رہ منزل سے تو

 

آفرینش میں سراپا نور، ظلمت ہوںمیں

اس سیہ روزی پہ لیکن تیرا ہم قسمت ہوں میں

 

آہ میں جلتا ہوں سوز اشتیاق دید سے

تو سراپا سوز داغ منت خورشید سے

 

ایک حلقے پر اگر قائم تیری رفتار ہے

میر ی گردش بھی مثال گردش پرکار ہے

 

 

زندگی کی رہ میں سرگرداں ہے تو، حیراں ہوںمیں

تو فروزاںمحفل ہستی میں ہے، سوزاں ہوںمیں

 

میں رہ منزل میں ہوں، تو بھی رہ  منزل میں ہیں

تیری محفل میں جو خاموشی ہے ، میرےدل میں ہے

 

تو طلب خو ہے تو میرا بھی یہی دستور ہے

چاندنی ہے نور تیرا، عشق میرا نور ہے

 

انجمن ہے ایک میری  بھی جہاں رہتا ہوں میں

بزم میں اپنی اگر یکتا ہے تو، تنہا ہوں میں

 

مہر کا پرتو ترے حق  میں ہے پیغام اجل

محو کردیاتاہے مجھ کو جلوہِ حسن ِ ازل

 

پھر بھی  اے ماہِ مبیں!میں اور ہوں تو اور ہے

دردجس پہلو میں اٹھتا ہو وہ پہلو اور ہے

 

گرچہ میں ظلمت سراپا ہوں، سراپا نور تو

سینکڑوں منزل ہےذوق آگہی سےدور تو

 

جو مری ہستی کا مقصد ہے، مجھے معلوم ہے

یہ چمک وہ ہے،جبیں جس سے تری محروم ہے

جمعرات، 15 جون، 2023

ابر

0 $type={blogger}

 

ابر

اٹھی پھر آج وہ پورب سے کالی کالی گھٹا

سیاہ پوش ہوا پھر پہاڑ سربن کا

 

نہاں ہو جو رخ مہر زیر دامن ابر

ہوائے سرد بھی آئی سوار تو سن ابر

 

گرج کا شور نہیں ہے، خموش ہے یہ گھٹا

عجیب مے کدہ ِبے خروش ہے یہ گھٹا

 

چمن  میں حکم نشاط مدام لائی ہے

قبائے گل میں گہر ٹانکنے کو آئی ہے

 

جو پھول مہر کی گرمی سے سو چلے تھے، اٹھے

زمیں کی گود میں جو پڑ کے سورہے تھے،اٹھے

 

ہو ا کے زور سے ابھرا، بڑھا، اڑا بادل

اٹھی وہ اور گھٹا، لو!برس پڑ ا بادل

عجیب خیمہ ہے کہسار کے نہالوں کا

یہیں قیام ہو وادی میں پھرنے والوں کا

 

آفتاب صبح

0 $type={blogger}

 



آفتاب صبح


شورش میخانہ انساں سے بالاتر ہے تو

زینت بزم فلک ہو جس سے وہ ساغر ہے تو

 

ہو در گوش عروس صبح وہ گوہر ہے تو

جس پہ سیمائے افق نازاں ہووہ زیور ہے تو

 

صفحہ ایام سے داغ مداددشب مٹا

آسماں سے نقش باطل کی طرح کوکب مٹا

 

حسن تیرا جب ہوا بام فلک سے جلوہ گر

آنکھ سے اڑتا ہے یک دم خواب کی مے کا اثر

 

نور سے معمور ہوجاتا ہے دامان نظر

کھولتی ہے چشم ظاہر کو ضیاء تیر ی مگر

 

ڈھونڈتی ہیں جس کو آنکھیں وہ تماشا چاہیے

چشم باطن جس سے کھل جائے وہ جلوا چاہیئے

شوق آزادی کے دنیا میں نہ نکلے حوصلے

زندگی بھر قید زنجیر تعلق میں رہے

 

زیرو بالا ایک ہیں تیری نگاہوں کے لیے

آرزو ہے کچھااسی چشم تماشا کی مجھے

 

آنکھ میری اور کے غم میں سرشک آباد ہو

امتیاز ملت و آئیں سےدل آزاد ہو

 

بستہ رنگ خصوصیت نہ ہو میری زباں

نوع انساں قوم ہومیری،وطن میرا جہاں

 

دیدہ باطن پہ رازنظم قدرت ہو عیاں

ہو شناسائے فلک شمع تخیل کا دھواں

 

عقدہ اضداد کی کاوش نہ تڑپائے مجھے

حسن عشق انگیزہر شے میں نظر آئے مجھے

 

صدمہ آجائے ہوا سےگل کی پتی کو اگر

اشک بن کر میری آنکھوں سے ٹپک جائے اثر

 

دل میں ہو سوز محبت کا وہ چھوٹا سا شرر

نور سے جس کے ملے راز حقیقت کی خبر

 

شاہد قدرت کا آئینہ ہو ، دل میرا نہ ہو

سر میں جز ہمدردی انساں کوئی سودا نہ ہو

 

تو اگر زحمت کش ہنگامہ عالم نہیں

یہ فضیلت نشاں اے نیر اعظم نہیں

 

اپنے حسن عالم آرا سے جو تو محرم نہیں

ہمسر یک ذرہ خاک در آدم نہیں

 

نور مسجود ملک گرم تماشا ہی رہا

اور تو منت پذیر صبح فردا ہی رہا

 

آرزو نور حقیقت کی ہمارے دل میں ہے

لیلی ذوق طلب کا گھر اسی  محمل میں ہے

 

کس قدر لذت کشود عقدہ مشکل میں ہے

لطف صد حاصل ہماری سعی بے حاصل میں ہے

 

درد استفہام سے واقف ترا پہلو نہیں

جستجو ئے راز قدرت کا شناسا تو نہیں

 

موج دریا

0 $type={blogger}

 



موج دریا

مضطرب رکھتا ہے میرا دل بے تاب مجھے

عین ہستی ہے تڑپ صورت سیماب مجھے

 

موج ہے نام مرا، بحر ہے پایاب مجھے

ہونہ زنجیر کبھی حلقہِ گرداب مجھے

 

آب میں مثل ہو ا جاتا ہے تو سن میرا

خار  ماہی سے نہ اٹکا کبھی دامن مرا

 

میں اچھلتی ہوں کبھی جذب مہ  کامل سے

جوش میں سر کو پٹکتی ہوں کبھی ساحل سے

 

ہوں وہ رہرو کہ محبت ہے مجھے منزل سے

کیوں تڑپتی ہوں ، یہ پوچھے کوئی مرے دل سے

 

زحمت تنگی دریا سےگریزاں ہوں میں

وسعت بحر کی فرقت میں پریشاں ہوں میں

 

ہفتہ، 4 فروری، 2023

شمع و پروانہ (کلام اقبال)

0 $type={blogger}

 شمع و پروانہ

پروانہ تجھ سے کرتا ہے اے شمع پیار کیوں

یہ جان بے قرار ہے تجھ پر نثار کیوں

 

سیماب وار رکھتی ہے تیری ادا اسے

آدابِ عشق تو نے سکھائے  ہیں کیا اسے؟

 

کرتا ہے یہ طواف  تری جلوہ گاہ کا

پھونکا ہوا ہے کیاتری برق نگاہ کا؟

 

غم خانہ جہاں میں جو تیری ضیاء نہ ہو

اس تفتہ دل کا نخل تمنا ہر نہ ہو

 

گرنا ترے حضور میں اس کی نماز ہے

ننھے سے دل میں لذت سوز و گداز ہے

 

کچھ اس میں جوش عاشق حسن قدیم ہے

چھوٹا سا طور تو یہ ذرا سا کلیم ہے

پروانہ، اور ذوق تماشائے روشنی

کیڑا ذرا سا اور تمنائے روشنی

جمعہ، 3 فروری، 2023

عہدِطفلی

0 $type={blogger}

عہدِطفلی

تھے دیارِ نو زمین و آسماں میرے لیے

وسعتِ آغوشِ مادراک جہاں میرے لیے

 

تھی ہر ایک جنبش نشان لطف جاں میرے لیے

حرفِ بے مطلب تھی خود میری زباں میرے لیے

 

درد، طفلی میں اگر کوئی رلاتا تھا مجھے

شورش زنجیر در میں لطف آتا تھا مجھے

 

تکتے رہنا ہائے، وہ پہروں تک سوئے قمر

وہ  پھٹے بادل میں بے آواز پا اس کا سفر

 

پوچھنا رہ رہ کے اس کے کوہ و صحرا کی خبر

اور وہ حیرت دروغ مصلحت آمیز پر

 

آنکھ وقف دید تھی،لب مائل گفتار تھا

دل نہ تھا میرا، سراپا ذوق استفسار تھا

ِؐ

جمعرات، 2 فروری، 2023

ایک پہاڑ اور گلہری (کلام اقبال)

0 $type={blogger}

 ایک پہاڑ اور گلہری

کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا  اِک گلہری سے

تجھے ہو شرم تو پانی میں جا کے ڈوب مرے

 

ذرا سی چیز ہے، اس پر غرور ، کیا کہنا

یہ عقل اور یہ سمجھ، یہ شعور ،کیا کہنا!

 

خدا کی شان ہےناچیز چیز بن بیٹھیں

جو بے شعور ہوں یوں باتمیز بن بیٹھیں

 

تیری بساط ہے کیا میری شان کے آگے

زمیں ہے پست مری آن بان کے آگے

 

جو بات مجھ میں ہے، تجھ کو وہ ہے نصیب کہاں

بھلا پہاڑ کہاں جانور غریب  کہاں

 

کہا یہ سن کے گلہری نے، منہ سنبھال ذرا

یہ کچی باتیں ہیں دل سے انھیں نکال ذرا

 

جو میں بڑی نہیں تیری طرح تو کیا پروا

نہیں تو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا

 

ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے

کوئی بڑا، کوئی چھوٹا، یہ اس کی حکمت ہے

 

بڑا جہاں میں تجھ کو بنا دیا اس نے

مجھے درخت پہ چڑھنا سکھا دیا اس نے

 

قدم اٹھانے کی  طاقت نہیں ذرا  تجھ میں

نری بڑائی ہے، خوبی ہے اور کیا تجھ میں

 

جو تو بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دکھا مجھ کو

یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو

 

نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں

کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں

بدھ، 1 فروری، 2023

درد عشق (کلام اقبال)

0 $type={blogger}

 

 درد عشق

اےد رد عشق! ہے گہر ، آب دار تو

نامحرموں میں دیکھ نہ ہو آشکار تو

 

پنہاں تہ نقاب تری جلوہ گاہ ہے

ظاہر پرست محفل نو کی نگاہ ہے

 

آئی نئی ہو چمن ہست و بود میں

اےدرد عشق! اب نہیں لذت نمود  میں

 

ہاں خود نمائیوں کی تجھے جستجو نہ ہو

منت پذیر نالہ ء بلبل کا تو نہ ہو!

 

خالی شراب عشق سے لالے کا جام ہو

پانی کی بوند گریہ ء شبنم کا نام ہو

 

پنہاں درون سینہ کہیں راز ہو ترا

اشک جگر گداز نہ غماز ہو ترا

گویا زبان شاعر رنگیں بیاں نہ ہو

آواز نے میں شکوہ فرقت نہاں نہ ہو

 

یہ دور نکتہ چیں ہے، کہیں چھپ کے بیٹھ رہ

جس دل میں تو مکیں ہے، وہیں چھپ کے بیٹھ رہ

 

غافل ہے تجھ سے حیرت علم آفریدہ دیکھ!

جویا نہیں تری نگہ نارسیدہ دیکھ

 

رہنے دے جستجو میں خیال بلند کو

حیرت میں چھوڑ دیدہء حکمت پسند کو

 

جس  کی بہار تو ہو یہ ایسا چمن نہیں

قابل  تری جمود کے یہ انجمن نہیں

 

یہ انجمن ہے کشتہ ء نظارہ ء مجاز

مقصد تری نگاہ کا خلوت سرائے راز

 

ہر دل خیال کی مستی سے چور ہے

کچھ اور آجکل کے کلیموں کا طور ہے

فیچر پوسٹیں

 
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});