موج دریا
مضطرب رکھتا ہے میرا دل بے تاب مجھے
عین ہستی ہے تڑپ صورت سیماب مجھے
موج ہے نام مرا، بحر ہے پایاب مجھے
ہونہ زنجیر کبھی حلقہِ گرداب مجھے
آب میں مثل ہو ا جاتا ہے تو سن میرا
خار ماہی
سے نہ اٹکا کبھی دامن مرا
میں اچھلتی ہوں کبھی جذب مہ کامل سے
جوش میں سر کو پٹکتی ہوں کبھی ساحل سے
ہوں وہ رہرو کہ محبت ہے مجھے منزل سے
کیوں تڑپتی ہوں ، یہ پوچھے کوئی مرے دل سے
زحمت تنگی دریا سےگریزاں ہوں میں
وسعت بحر کی فرقت میں پریشاں ہوں میں











0 $type={blogger}:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔