آفتاب صبح
شورش
میخانہ انساں سے بالاتر ہے تو
زینت بزم
فلک ہو جس سے وہ ساغر ہے تو
ہو در گوش
عروس صبح وہ گوہر ہے تو
جس پہ
سیمائے افق نازاں ہووہ زیور ہے تو
صفحہ ایام
سے داغ مداددشب مٹا
آسماں سے
نقش باطل کی طرح کوکب مٹا
حسن تیرا
جب ہوا بام فلک سے جلوہ گر
آنکھ سے
اڑتا ہے یک دم خواب کی مے کا اثر
نور سے
معمور ہوجاتا ہے دامان نظر
کھولتی ہے
چشم ظاہر کو ضیاء تیر ی مگر
ڈھونڈتی
ہیں جس کو آنکھیں وہ تماشا چاہیے
چشم باطن
جس سے کھل جائے وہ جلوا چاہیئے
شوق آزادی
کے دنیا میں نہ نکلے حوصلے
زندگی بھر
قید زنجیر تعلق میں رہے
زیرو بالا
ایک ہیں تیری نگاہوں کے لیے
آرزو ہے
کچھااسی چشم تماشا کی مجھے
آنکھ میری
اور کے غم میں سرشک آباد ہو
امتیاز
ملت و آئیں سےدل آزاد ہو
بستہ رنگ
خصوصیت نہ ہو میری زباں
نوع انساں
قوم ہومیری،وطن میرا جہاں
دیدہ باطن
پہ رازنظم قدرت ہو عیاں
ہو شناسائے
فلک شمع تخیل کا دھواں
عقدہ
اضداد کی کاوش نہ تڑپائے مجھے
حسن عشق
انگیزہر شے میں نظر آئے مجھے
صدمہ
آجائے ہوا سےگل کی پتی کو اگر
اشک بن کر
میری آنکھوں سے ٹپک جائے اثر
دل میں ہو
سوز محبت کا وہ چھوٹا سا شرر
نور سے جس
کے ملے راز حقیقت کی خبر
شاہد قدرت
کا آئینہ ہو ، دل میرا نہ ہو
سر میں جز
ہمدردی انساں کوئی سودا نہ ہو
تو اگر
زحمت کش ہنگامہ عالم نہیں
یہ فضیلت
نشاں اے نیر اعظم نہیں
اپنے حسن
عالم آرا سے جو تو محرم نہیں
ہمسر یک
ذرہ خاک در آدم نہیں
نور مسجود
ملک گرم تماشا ہی رہا
اور تو
منت پذیر صبح فردا ہی رہا
آرزو نور
حقیقت کی ہمارے دل میں ہے
لیلی ذوق
طلب کا گھر اسی محمل میں ہے
کس قدر
لذت کشود عقدہ مشکل میں ہے
لطف صد
حاصل ہماری سعی بے حاصل میں ہے
درد
استفہام سے واقف ترا پہلو نہیں
جستجو ئے
راز قدرت کا شناسا تو نہیں











0 $type={blogger}:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔