https://www.highrevenuenetwork.com/yn6if2b2vi?key=3baa9b1915fea6b70c39fb465ca5cd9e سر گزشت آدم سنے کوئی مری غربت کی داستاں مجھ سے بھلایا قصہ پیمان اولیں میں نے لگی نہ میری طبیعت ریاض جنت میں پیا شعور کا جب جام آتشیں میں نے رہی حقیقت عالم کی جستجو مجھ کو دکھایا اوج خیال فلک نشیں میں نے ملا مزاج تغیر پسند کچھ ایسا کیا قرار نہ زیر فلک کہیں میں نے نکالا کعبے سے پتھر کی مورتوں کو کبھی کبھی بتوں کو بنایا حرم نشیں میں نے کبھی میں ذوق تکلم میں طور پر پہنچا چھپایا نور ازل زیر آستیں میں نے کبھی صلیب پہ اپنوں نے مجھ کو لٹکایا کیا فلک کو سفر، چھوڑ کر زمیں میں نے کبھی میں غار حرا میں چھپا رہا برسوں دیا جہاں کو کبھی جام آخریں میں نے سنایا ہند میں آ کر سرود ربانی پسند کی کبھی یوناں کی سر زمیں میں نے دیار ہند نے جس دم مری صدا نہ سنی بسایا خطہء جاپان و ملک چیں میں نے بنایا ذروں کی ترکیب سے کبھی عالم خلاف معنی تعلیم اہل دیں میں نے لہو سے لال کیا سینکڑوں زمینوں کو جہاں میں چھیڑ کے پیکار عقل و دیں میں نے سمجھ میں آئی حقیقت نہ جب ستاروں کی اسی خیال میں راتیں گزار دیں میں نے ڈرا سکیں نہ کلیسا کی مجھ کو تلواریں سکھایا مسئلہ گردش زمیں میں نے کشش کا راز ہویدا کیا زمانے پر لگا کے آئنہ عقل دور بیں میں نے کیا اسیر شعاعوں کو ، برق مضطر کو بنادی غیرت جنت یہ سر زمیں میں نے مگر خبر نہ ملی آہ! راز ہستی کی کیا خرد سے جہاں کو تہ نگیں میں نے ہوئی جو چشم مظاہر پرست وا آخر تو پایا خانہء دل میں اسے مکیں میں نے | آپ کی اردو

پیر، 3 جون، 2024

سر گزشت آدم سنے کوئی مری غربت کی داستاں مجھ سے بھلایا قصہ پیمان اولیں میں نے لگی نہ میری طبیعت ریاض جنت میں پیا شعور کا جب جام آتشیں میں نے رہی حقیقت عالم کی جستجو مجھ کو دکھایا اوج خیال فلک نشیں میں نے ملا مزاج تغیر پسند کچھ ایسا کیا قرار نہ زیر فلک کہیں میں نے نکالا کعبے سے پتھر کی مورتوں کو کبھی کبھی بتوں کو بنایا حرم نشیں میں نے کبھی میں ذوق تکلم میں طور پر پہنچا چھپایا نور ازل زیر آستیں میں نے کبھی صلیب پہ اپنوں نے مجھ کو لٹکایا کیا فلک کو سفر، چھوڑ کر زمیں میں نے کبھی میں غار حرا میں چھپا رہا برسوں دیا جہاں کو کبھی جام آخریں میں نے سنایا ہند میں آ کر سرود ربانی پسند کی کبھی یوناں کی سر زمیں میں نے دیار ہند نے جس دم مری صدا نہ سنی بسایا خطہء جاپان و ملک چیں میں نے بنایا ذروں کی ترکیب سے کبھی عالم خلاف معنی تعلیم اہل دیں میں نے لہو سے لال کیا سینکڑوں زمینوں کو جہاں میں چھیڑ کے پیکار عقل و دیں میں نے سمجھ میں آئی حقیقت نہ جب ستاروں کی اسی خیال میں راتیں گزار دیں میں نے ڈرا سکیں نہ کلیسا کی مجھ کو تلواریں سکھایا مسئلہ گردش زمیں میں نے کشش کا راز ہویدا کیا زمانے پر لگا کے آئنہ عقل دور بیں میں نے کیا اسیر شعاعوں کو ، برق مضطر کو بنادی غیرت جنت یہ سر زمیں میں نے مگر خبر نہ ملی آہ! راز ہستی کی کیا خرد سے جہاں کو تہ نگیں میں نے ہوئی جو چشم مظاہر پرست وا آخر تو پایا خانہء دل میں اسے مکیں میں نے

0 $type={blogger}

 سر گزشت آدم 


 سنے کوئی مری غربت کی داستاں مجھ سے 

 بھلایا قصہ پیمان اولیں میں نے 


 لگی نہ میری طبیعت ریاض جنت میں 

 پیا شعور کا جب جام آتشیں میں نے 


 رہی حقیقت عالم کی جستجو مجھ کو 

 دکھایا اوج خیال فلک نشیں میں نے 


 ملا مزاج تغیر پسند کچھ ایسا 

 کیا قرار نہ زیر فلک کہیں میں نے 


 نکالا کعبے سے پتھر کی مورتوں کو کبھی 

 کبھی بتوں کو بنایا حرم نشیں میں نے 


 کبھی میں ذوق تکلم میں طور پر پہنچا 

 چھپایا نور ازل زیر آستیں میں نے 


 کبھی صلیب پہ اپنوں نے مجھ کو لٹکایا 

 کیا فلک کو سفر، چھوڑ کر زمیں میں نے 


 کبھی میں غار حرا میں چھپا رہا برسوں 

 دیا جہاں کو کبھی جام آخریں میں نے 


 سنایا ہند میں آ کر سرود ربانی 

 پسند کی کبھی یوناں کی سر زمیں میں نے 


 دیار ہند نے جس دم مری صدا نہ سنی 

 بسایا خطہء جاپان و ملک چیں میں نے 


 بنایا ذروں کی ترکیب سے کبھی عالم 

 خلاف معنی تعلیم اہل دیں میں نے 


 لہو سے لال کیا سینکڑوں زمینوں کو 

 جہاں میں چھیڑ کے پیکار عقل و دیں میں نے 


 سمجھ میں آئی حقیقت نہ جب ستاروں کی 

 اسی خیال میں راتیں گزار دیں میں نے 


 ڈرا سکیں نہ کلیسا کی مجھ کو تلواریں 

 سکھایا مسئلہ گردش زمیں میں نے 


 کشش کا راز ہویدا کیا زمانے پر 

 لگا کے آئنہ عقل دور بیں میں نے 


 کیا اسیر شعاعوں کو ، برق مضطر کو 

 بنادی غیرت جنت یہ سر زمیں میں نے 


 مگر خبر نہ ملی آہ! راز ہستی کی 

 کیا خرد سے جہاں کو تہ نگیں میں نے 


 ہوئی جو چشم مظاہر پرست وا آخر 

 تو پایا خانہء دل میں اسے مکیں میں نے سر گزشت آدم 


 سنے کوئی مری غربت کی داستاں مجھ سے 

 بھلایا قصہ پیمان اولیں میں نے 


 لگی نہ میری طبیعت ریاض جنت میں 

 پیا شعور کا جب جام آتشیں میں نے 


 رہی حقیقت عالم کی جستجو مجھ کو 

 دکھایا اوج خیال فلک نشیں میں نے 


 ملا مزاج تغیر پسند کچھ ایسا 

 کیا قرار نہ زیر فلک کہیں میں نے 


 نکالا کعبے سے پتھر کی مورتوں کو کبھی 

 کبھی بتوں کو بنایا حرم نشیں میں نے 


 کبھی میں ذوق تکلم میں طور پر پہنچا 

 چھپایا نور ازل زیر آستیں میں نے 


 کبھی صلیب پہ اپنوں نے مجھ کو لٹکایا 

 کیا فلک کو سفر، چھوڑ کر زمیں میں نے 


 کبھی میں غار حرا میں چھپا رہا برسوں 

 دیا جہاں کو کبھی جام آخریں میں نے 


 سنایا ہند میں آ کر سرود ربانی 

 پسند کی کبھی یوناں کی سر زمیں میں نے 


 دیار ہند نے جس دم مری صدا نہ سنی 

 بسایا خطہء جاپان و ملک چیں میں نے 


 بنایا ذروں کی ترکیب سے کبھی عالم 

 خلاف معنی تعلیم اہل دیں میں نے 


 لہو سے لال کیا سینکڑوں زمینوں کو 

 جہاں میں چھیڑ کے پیکار عقل و دیں میں نے 


 سمجھ میں آئی حقیقت نہ جب ستاروں کی 

 اسی خیال میں راتیں گزار دیں میں نے 


 ڈرا سکیں نہ کلیسا کی مجھ کو تلواریں 

 سکھایا مسئلہ گردش زمیں میں نے 


 کشش کا راز ہویدا کیا زمانے پر 

 لگا کے آئنہ عقل دور بیں میں نے 


 کیا اسیر شعاعوں کو ، برق مضطر کو 

 بنادی غیرت جنت یہ سر زمیں میں نے 


 مگر خبر نہ ملی آہ! راز ہستی کی 

 کیا خرد سے جہاں کو تہ نگیں میں نے 


 ہوئی جو چشم مظاہر پرست وا آخر 

 تو پایا خانہء دل میں اسے مکیں میں نے 

0 $type={blogger}:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

فیچر پوسٹیں

 
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});