غزلیات (2)
(1)
زندگی انساں کی اک دم کے سوا کچھ بھی نہیں
زندگی انساں کی اک دم کے سوا کچھ بھی نہیں
دم ہوا کی موج ہے، رم کے سوا کچھ بھی نہیں
گل تبسم کہہ رہا تھا زندگانی کو مگر
شمع بولی، گریہء غم کے سوا کچھ بھی نہیں
راز ہستی راز ہے جب تک کوئی محرم نہ ہو
کھل گیا جس دم تو محرم کے سوا کچھ بھی نہیں
زائران کعبہ سے اقبال یہ پوچھے کوئی
کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں!
(2)
الہی عقل خجستہ پے کو ذرا سی دیوانگی سکھا دے
الہی عقل خجستہ پے کو ذرا سی دیوانگی سکھا دے
اسے ہے سودائے بخیہ کاری، مجھے سر پیرہن نہیں ہے
ملا محبت کا سوز مجھ کو تو بولے صبح ازل فرشتے
مثال شمع مزار ہے تو، تری کوئی انجمن نہیں ہے
یہاں کہاں ہم نفس میسر، یہ دیس نا آشنا ہے اے دل!
وہ چیز تو مانگتا ہے مجھ سے کہ زیر چرخ کہن نہیں ہے
نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا
بنا ہمارے حصار ملت کی اتحاد وطن نہیں ہے
کہاں کا آنا، کہاں کا جانا، فریب ہے امتیاز عقبی
نمود ہر شے میں ہے ہماری، کہیں ہمارا وطن نہیں ہے
مدیر 'مخزن' سے کوئی اقبال جا کے میرا پیام کہہ دے
جوکام کچھ کر رہی ہیں قومیں، انھیں مذاق سخن نہیں ہے
زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا
زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا
مری خموشی نہیں ہے، گویا مزار ہے حرف آرزو کا
جو موج دریا لگی یہ کہنے، سفر سے قائم ہے شان میری
گہر یہ بولا صدف نشینی ہے مجھ کو سامان آبرو کا
نہ ہو طبیعت ہی جن کی قابل، وہ تربیت سے نہیں سنورتے
ہوا نہ سرسبز رہ کے پانی میں عکس سرو کنار جو کا
کوئی دل ایسا نظر نہ آیا نہ جس میں خوابیدہ ہو تمنا
الہی تیرا جہان کیا ہے نگار خانہ ہے آرزو کا
کھلا یہ مر کر کہ زندگی اپنی تھی طلسم ہوس سراپا
جسے سمجھتے تھے جسم خاکی، غبار تھا کوئے آرزو کا
اگر کوئی شے نہیں ہے پنہاں تو کیوں سراپا تلاش ہوں میں
نگہ کو نظارے کی تمنا ہے، دل کو سودا ہے جستجو کا
چمن میں گلچیں سے غنچہ کہتا تھا، اتنا بیدرد کیوں ہے انساں
تری نگاہوں میں ہے تبسم شکستہ ہونا مرے سبو کا
(4)
ریاض ہستی کے ذرے ذرے سے ہے محبت کا جلوہ پیدا
ریاض ہستی کے ذرے ذرے سے ہے محبت کا جلوہ پیدا
حقیقت گل کو تو جو سمجھے تو یہ بھی پیماں ہے رنگ و بو کا
تمام مضموں مرے پرانے، کلام میرا خطا سراپا
ہنر کوئی دیکھتا ہے مجھ میں تو عیب ہے میرے عیب جو کا
سپاس شرط ادب ہے ورنہ کرم ترا ہے ستم سے بڑھ کر
ذرا سا اک دل دیا ہے، وہ بھی فریب خوردہ ہے آرزو کا
کمال وحدت عیاں ہے ایسا کہ نوک نشتر سے تو جو چھیڑے
یقیں ہے مجھ کو گرے رگ گل سے قطرہ انسان کے لہو کا
گیا ہے تقلید کا زمانہ، مجاز رخت سفر اٹھائے
ہوئی حقیقت ہی جب نمایاں تو کس کو یارا ہے گفتگو کا
جو گھر سے اقبال دور ہوں میں، تو ہوں نہ محزوں عزیز میرے
مثال گوہر وطن کی فرقت کمال ہے میری آبرو کا
(4)
چمک تیری عیاں بجلی میں، آتش میں، شرارے میں
چمک تیری عیاں بجلی میں، آتش میں، شرارے میں
جھلک تیری ہویدا چاند میں،سورج میں، تارے میں
بلندی آسمانوں میں، زمینوں میں تری پستی
روانی بحر میں، افتادگی تیری کنارے میں
شریعت کیوں گریباں گیر ہو ذوق تکلم کی
چھپا جاتا ہوں اپنے دل کا مطلب استعارے میں
جو ہے بیدار انساں میں وہ گہری نیند سوتا ہے
شجر میں، پھول میں، حیواں میں، پتھر میں، ستارے میں
مجھے پھونکا ہے سوز قطرہء اشک محبت نے
غضب کی آگ تھی پانی کے چھوٹے سے شرارے میں
نہیں جنس ثواب آخرت کی آرزو مجھ کو
وہ سوداگر ہوں، میں نے نفع دیکھا ہے خسارے میں
سکوں نا آشنا رہنا اسے سامان ہستی ہے
تڑپ کس دل کی یا رب چھپ کے آ بیٹھی ہے پارے میں
صدائے لن ترانی سن کے اے اقبال میں چپ ہوں
تقاضوں کی کہاں طاقت ہے مجھ فرقت کے مارے میں
(5)
یوں تو اے بزم جہاں! دلکش تھے ہنگامے ترے
یوں تو اے بزم جہاں! دلکش تھے ہنگامے ترے
اک ذرا افسردگی تیرے تماشائوں میں تھی
پا گئی آسودگی کوئے محبت میں وہ خاک
مدتوں آوارہ جو حکمت کے صحرائوں میں تھی
کس قدر اے مے! تجھے رسم حجاب آئی پسند
پردہ انگور سے نکلی تو مینائوں میں تھی
حسن کی تاثیر پر غالب نہ آ سکتا تھا علم
اتنی نادانی جہاں کے سارے دانائوں میں تھی
میں نے اے اقبال یورپ میں اسے ڈھونڈا عبث
بات جو ہندوستاں کے ماہ سیمائوں میں تھی
(6)
مثال پرتو مے، طوف جام کرتے ہیں
مثال پرتو مے، طوف جام کرتے ہیں
یہی نماز ادا صبح و شام کرتے ہیں
خصوصیت نہیں کچھ اس میں اے کلیم تری
شجر حجر بھی خدا سے کلام کرتے ہیں
نیا جہاں کوئی اے شمع ڈھونڈیے کہ یہاں
ستم کش تپش ناتمام کرتے ہیں
بھلی ہے ہم نفسو اس چمن میں خاموشی
کہ خوشنوائوں کو پابند دام کرتے ہیں
غرض نشاط ہے شغل شراب سے جن کی
حلال چیز کو گویا حرام کرتے ہیں
بھلا نبھے گی تری ہم سے کیونکر اے واعظ!
کہ ہم تو رسم محبت کو عام کرتے ہیں
الہی سحر ہے پیران خرقہ پوش میں کیا!
کہ اک نظر سے جوانوں کو رام کرتے ہیں
میں ان کی محفل عشرت سے کانپ جاتا ہوں
جو گھر کو پھونک کے دنیا میں نام کرتے ہیں
ہرے رہو وطن مازنی کے میدانو!
جہاز پر سے تمھیں ہم سلام کرتے ہیں
جو بے نماز کبھی پڑھتے ہیں نماز اقبال
بلا کے دیر سے مجھ کو امام کرتے ہیں
(7)
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدار یار ہو گا
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدار یار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جس کا، وہ راز اب آشکار ہوگا
گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان مے خانہ، ہر کوئی بادہ خوار ہو گا
کبھی جو آوارہ جنوں تھے، وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خارزار ہو گا
سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا، پھر استوار ہو گا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا
کیا مرا تذکرہ جوساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں
تو پیر میخانہ سن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے، خوار ہو گا
دیار مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زر کم عیار ہو گا
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جوشاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہو گا
سفینہ برگ گل بنا لے گا قافلہ مور ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہو گا
چمن میں لالہ دکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو
یہ جانتا ہے کہ اس دکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہو گا
جو ایک تھا اے نگاہ تو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا
یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہو گا
کہا جوقمری سے میں نے اک دن، یہاں کے آزاد پا بہ گل ہیں
توغنچے کہنے لگے، ہمارے چمن کا یہ رازدار ہو گا
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا
یہ رسم بزم فنا ہے اے دل! گناہ ہے جنبش نظر بھی
رہے گی کیا آبرو ہماری جو تو یہاں بے قرار ہو گا
میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شررفشاں ہوگی آہ میری، نفس مرا شعلہ بار ہو گا
نہیں ہے غیر از نمود کچھ بھی جو مدعا تیری زندگی کا
تو اک نفس میں جہاں سے مٹنا تجھے مثال شرار ہو گا
نہ پوچھ اقبال کا ٹھکانا ابھی وہی کیفیت ہے اس کی
کہیں سر رہ گزار بیٹھا ستم کش انتظار ہو گا
