https://www.highrevenuenetwork.com/yn6if2b2vi?key=3baa9b1915fea6b70c39fb465ca5cd9e آپ کی اردو، اقبالیات، افکار اقبال | آپ کی اردو
آپ کی اردو، اقبالیات، افکار اقبال لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
آپ کی اردو، اقبالیات، افکار اقبال لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 4 جولائی، 2023

غزل (5) لاؤں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے

0 $type={blogger}

 

غزل    (5)

 

لاؤں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے

بجلیاں بے تاب ہوں جن کو جلانے کے لیے

 

وائے ناکامی، فلک نے تاک کر توڑا اسے

میں نے جس ڈالی کو تاڑا آشیانے کے لیے

 

آنکھ مل جاتی ہے ہفتاد و دو ملت سے تری

ایک پیمانہ ترا سارے زمانے کے لیے

 

دل میں کوئی اس طرح کی آرزو پیدا کروں

لوٹ جائے آسماں میرے مٹانے کے لیے

 

جمع کر خرمن تو پہلے دانہ دانہ چن کے تو

آ ہی نکلے گی کوئی بجلی جلانے کے لیے

 

پاس تھا ناکامی صیاد کا اے ہم صفیر

ورنہ میں، اور اڑ کے آتا ایک دانے کے لیے!

 

اس چمن میں مرغ دل گائے نہ آزادی کا گیت

آہ یہ گلشن نہیں ایسے ترانے کے لیے

غزل (3) کیا کہوں اپنے چمن سے میں جدا کیونکر ہوا

0 $type={blogger}

 

غزل (3)

 

کیا کہوں اپنے چمن سے میں جدا کیونکر ہوا

اور اسیر حلقہ دام ہوا کیونکر ہوا

 

جائے حیرت ہے برا سارے زمانے کا ہوں میں

مجھ کو یہ خلعت شرافت کا عطا کیونکر ہوا

 

کچھ دکھانے دیکھنے کا تھا تقاضا طور پر

کیا خبر ہے تجھ کو اے دل فیصلا کیونکر ہوا

 

ہے طلب بے مدعا ہونے کی بھی اک مدعا

مرغ دل دام تمنا سے رہا کیونکر ہوا

 

دیکھنے والے یہاں بھی دیکھ لیتے ہیں تجھے

پھر یہ وعدہ حشر کا صبر آزما کیونکر ہوا

 

حسن کامل ہی نہ ہو اس بے حجابی کا سبب

وہ جو تھا پردوں میں پنہاں، خود نما کیونکر ہوا

 

موت کا نسخہ ابھی باقی ہے اے درد فراق!

چارہ گر دیوانہ ہے، میں لا دوا کیونکر ہوا

 

تو نے دیکھا ہے کبھی اے دیدہء عبرت کہ گل

ہو کے پیدا خاک سے رنگیں قبا کیونکر ہوا

 

پرسش اعمال سے مقصد تھا رسوائی مری

ورنہ ظاہر تھا سبھی کچھ، کیا ہوا، کیونکر ہوا

 

میرے مٹنے کا تماشا دیکھنے کی چیز تھی

کیا بتائوں ان کا میرا سامنا کیونکر ہوا

 

غزل (2) عجب واعظ کی دینداری ہے یا رب

0 $type={blogger}

 

غزل            (2)

  

عجب واعظ کی دینداری ہے یا رب

عداوت ہے اسے سارے جہاں سے

 

کوئی اب تک نہ یہ سمجھا کہ انساں

کہاں جاتا ہے، آتا ہے کہاں سے

 

وہیں سے رات کو ظلمت ملی ہے

چمک تارے نے پائی ہے جہاں سے

 

ہم اپنی درد مندی کا فسانہ

سنا کرتے ہیں اپنے رازداں سے

 

بڑی باریک ہیں واعظ کی چالیں

لرز جاتا ہے آواز اذاں سے

 

فیچر پوسٹیں

 
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});