https://www.highrevenuenetwork.com/yn6if2b2vi?key=3baa9b1915fea6b70c39fb465ca5cd9e اقبالیات، کلامِ اقبال، اقبال کی شاعری | آپ کی اردو
اقبالیات، کلامِ اقبال، اقبال کی شاعری لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
اقبالیات، کلامِ اقبال، اقبال کی شاعری لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ہفتہ، 24 جون، 2023

نیا شوالا

0 $type={blogger}

 



نیا شوالا

 

سچ کہہ دوں اے برہمن! گر تو برا نہ مانے

تیرے صنم کدوں کے بت ہو گئے پرانے

 

اپنوں سے بیر رکھنا تو نے بتوں سے سیکھا

جنگ و جدل سکھایا واعظ کو بھی خدا نے

 

تنگ آ کے میں نے آخر دیر و حرم کو چھوڑا

واعظ کا وعظ چھوڑا، چھوڑے ترے فسانے

 

پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے

خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے

 

آ، غیریت کے پردے اک بار پھر اٹھا دیں

بچھڑوں کو پھر ملا دیں نقش دوئی مٹا دیں


سونی پڑی ہوئی ہے مدت سے دل کی بستی

آ، اک نیا شوالا اس دیس میں بنا دیں

 

دنیا کے تیرتھوں سے اونچا ہو اپنا تیرتھ

دامان آسماں سے اس کا کلس ملا دیں

 

ہر صبح اٹھ کے گائیں منتر وہ مٹیھے مٹیھے

سارے پجاریوں کو مے پیت کی پلا دیں

 

شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے

دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے

 

جمعہ، 23 جون، 2023

پرندے کی فریاد

0 $type={blogger}

 

پرندے کی فریاد


آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانا

وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا

 

آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی

اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا

 

لگتی ہے چوٹ دل پر، آتا ہے یاد جس دم

شبنم کے آنسوئوں پر کلیوں کا مسکرانا

 

وہ پیاری پیاری صورت، وہ کامنی سی مورت

آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانا

 

آتی نہیں صدائیں اس کی مرے قفس میں

ہوتی مری رہائی اے کاش میرے بس میں

 

کیا بد نصیب ہوں میں گھر کو ترس رہا ہوں

ساتھی تو ہیں وطن میں، میں قید میں پڑا ہوں

 

آئی بہار کلیاں پھولوں کی ہنس رہی ہیں

میں اس اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہوں

 

اس قید کا الہی! دکھڑا کسے سنائوں

ڈر ہے یہیں قفسں میں میں غم سے مر نہ جائوں

 

جب سے چمن چھٹا ہے، یہ حال ہو گیا ہے

دل غم کو کھا رہا ہے، غم دل کو کھا رہا ہے

 

گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے

دکھے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے

 

آزاد مجھ کو کر دے، او قید کرنے والے!

میں بے زباں ہوں قیدی، تو چھوڑ کر دعا لے

 

 

جمعرات، 15 جون، 2023

موج دریا

0 $type={blogger}

 



موج دریا

مضطرب رکھتا ہے میرا دل بے تاب مجھے

عین ہستی ہے تڑپ صورت سیماب مجھے

 

موج ہے نام مرا، بحر ہے پایاب مجھے

ہونہ زنجیر کبھی حلقہِ گرداب مجھے

 

آب میں مثل ہو ا جاتا ہے تو سن میرا

خار  ماہی سے نہ اٹکا کبھی دامن مرا

 

میں اچھلتی ہوں کبھی جذب مہ  کامل سے

جوش میں سر کو پٹکتی ہوں کبھی ساحل سے

 

ہوں وہ رہرو کہ محبت ہے مجھے منزل سے

کیوں تڑپتی ہوں ، یہ پوچھے کوئی مرے دل سے

 

زحمت تنگی دریا سےگریزاں ہوں میں

وسعت بحر کی فرقت میں پریشاں ہوں میں

 

فیچر پوسٹیں

 
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});