شمع و پروانہ
پروانہ تجھ سے کرتا ہے اے شمع پیار کیوں
یہ جان بے قرار ہے تجھ پر نثار کیوں
سیماب وار رکھتی ہے تیری ادا اسے
آدابِ عشق
تو نے سکھائے ہیں کیا اسے؟
کرتا ہے یہ طواف
تری جلوہ گاہ کا
پھونکا ہوا ہے کیاتری برق نگاہ کا؟
غم خانہ جہاں میں جو تیری ضیاء نہ ہو
اس تفتہ دل کا نخل تمنا ہر نہ ہو
گرنا ترے حضور میں اس کی نماز ہے
ننھے سے دل میں لذت سوز و گداز ہے
کچھ اس میں جوش عاشق حسن قدیم ہے
چھوٹا سا طور تو یہ ذرا سا کلیم ہے
پروانہ، اور ذوق تماشائے روشنی
کیڑا ذرا سا اور تمنائے روشنی










0 $type={blogger}:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔