شمع و پروانہ
پروانہ تجھ سے کرتا ہے اے شمع پیار کیوں
یہ جان بے قرار ہے تجھ پر نثار کیوں
سیماب وار رکھتی ہے تیری ادا اسے
آدابِ عشق
تو نے سکھائے ہیں کیا اسے؟
کرتا ہے یہ طواف
تری جلوہ گاہ کا
پھونکا ہوا ہے کیاتری برق نگاہ کا؟
غم خانہ جہاں میں جو تیری ضیاء نہ ہو
اس تفتہ دل کا نخل تمنا ہر نہ ہو
گرنا ترے حضور میں اس کی نماز ہے
ننھے سے دل میں لذت سوز و گداز ہے
کچھ اس میں جوش عاشق حسن قدیم ہے
چھوٹا سا طور تو یہ ذرا سا کلیم ہے
پروانہ، اور ذوق تماشائے روشنی
کیڑا ذرا سا اور تمنائے روشنی