https://www.highrevenuenetwork.com/yn6if2b2vi?key=3baa9b1915fea6b70c39fb465ca5cd9e | آپ کی اردو

منگل، 27 جون، 2023

ایک گائے اور بکری

0 $type={blogger}

 



ایک گائے اور بکری

 

اک چراگہ ہری بھری تھی کہیں

تھی سراپا بہار جس کی زمیں

 

کیا سماں اس بہار کا ہو بیاں

ہر طرف صاف ندیاں تھیں رواں

 

تھے اناروں کے بے شمار درخت

اور پیپل کے سایہ دار درخت

 

ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آتی تھیں

طائروں کی صدائیں آتی تھیں

 

کسی ندی کے پاس اک بکری

چرتے چرتے کہیں سے آ نکلی

 

جب ٹھہر کر ادھر ادھر دیکھا

پاس اک گائے کو کھڑے پایا

 

پہلے جھک کر اسے سلام کیا

پھر سلیقے سے یوں کلام کیا

 

کیوں بڑی بی! مزاج کیسے ہیں

گائے بولی کہ خیر اچھے ہیں

 

کٹ رہی ہے بری بھلی اپنی

ہے مصیبت میں زندگی اپنی

 

جان پر آ بنی ہے، کیا کہیے

اپنی قسمت بری ہے، کیا کہیے

 

دیکھتی ہوں خدا کی شان کو میں

رو رہی ہوں بروں کی جان کو میں

 

زور چلتا نہیں غریبوں کا

پیش آیا لکھا نصیبوں کا

 

آدمی سے کوئی بھلا نہ کرے

اس سے پالا پڑے، خدا نہ کرے

 

دودھ کم دوں تو بڑبڑاتا ہے

ہوں جو دبلی تو بیچ کھاتا ہے

 

ہتھکنڈوں سے غلام کرتا ہے

کن فریبوں سے رام کرتا ہے

 

اس کے بچوں کو پالتی ہوں میں

دودھ سے جان ڈالتی ہوں میں

 

بدلے نیکی کے یہ برائی ہے

میرے اللہ! تری دہائی ہے

 

سن کے بکری یہ ماجرا سارا

بولی، ایسا گلہ نہیں اچھا

 

بات سچی ہے بے مزا لگتی

میں کہوں گی مگر خدا لگتی

 

یہ چراگہ، یہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا

یہ ہری گھاس اور یہ سایا

 

ایسی خوشیاں ہمیں نصیب کہاں

یہ کہاں، بے زباں غریب کہاں!

 

یہ مزے آدمی کے دم سے ہیں

لطف سارے اسی کے دم سے ہیں

 

اس کے دم سے ہے اپنی آبادی

قید ہم کو بھلی، کہ آزادی

 

سو طرح کا بنوں میں ہے کھٹکا

واں کی گزران سے بچائے خدا

 

ہم پہ احسان ہے بڑا اس کا

ہم کو زیبا نہیں گلا اس کا

 

قدر آرام کی اگر سمجھو

آدمی کا کبھی گلہ نہ کرو

 

گائے سن کر یہ بات شرمائی

آدمی کے گلے سے پچھتائی

 

دل میں پرکھا بھلا برا اس نے

اور کچھ سوچ کر کہا اس نے

 

یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی

دل کو لگتی ہے بات بکری کی

 

گل پژمردہ

0 $type={blogger}

 



گل پژمردہ

 

کس زباں سے اے گل پژمردہ تجھ کو گل کہوں

کس طرح تجھ کو تمنائے دل بلبل کہوں

 

تھی کبھی موج صبا گہوارہء جنباں ترا

نام تھا صحن گلستاں میں گل خنداں ترا

 

تیرے احساں کا نسیم صبح کو اقرار تھا

باغ تیرے دم سے گویا طبلہء عطار تھا

 

تجھ پہ برساتا ہے شبنم دیدہء گریاں مرا

ہے نہاں تیری اداسی میں دل ویراں مرا

 

میری بربادی کی ہے چھوٹی سی اک تصویر تو

خوا ب میری زندگی تھی جس کی ہے تعبیر تو

 

ہمچو نے از نیستان خود حکایت می کنم

بشنو اے گل! از جدائی ہا شکایت می کنم

 

ایک پرندہ اور جگنو

0 $type={blogger}

 

آپ کی اردو  (ایک پرندہ اور جگنو)


 

سر شام ایک مرغ نغمہ پیرا

کسی ٹہنی پہ بیٹھا گا رہا تھا

 

چمکتی چیز اک دیکھی زمیں پر

اڑا طائر اسے جگنو سمجھ کر

 

کہا جگنو نے او مرغ نواریز!

نہ کر بے کس پہ منقار ہوس تیز

 

تجھے جس نے چہک، گل کو مہک دی

اسی اللہ نے مجھ کو چمک دی

 

لباس نور میں مستور ہوں میں

پتنگوں کے جہاں کا طور ہوں میں

 

چہک تیری بہشت گوش اگر ہے

چمک میری بھی فردوس نظر ہے

 

پروں کو میرے قدرت نے ضیا دی

تجھے اس نے صدائے دل ربا دی

 

تری منقار کو گانا سکھایا

مجھے گلزار کی مشعل بنایا

 

چمک بخشی مجھے، آواز تجھ کو

دیا ہے سوز مجھ کو، ساز تجھ کو

 

مخالف ساز کا ہوتا نہیں سوز

جہاں میں ساز کا ہے ہم نشیں سوز

 

قیام بزم ہستی ہے انھی سے

ظہور اوج و پستی ہے انھی سے

 

ہم آہنگی سے ہے محفل جہاں کی

اسی سے ہے بہار اس بوستاں کی

 

 

فیچر پوسٹیں

 
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});