گل
پژمردہ
کس
زباں سے اے
گل پژمردہ تجھ
کو گل کہوں
کس
طرح تجھ کو
تمنائے دل بلبل
کہوں
تھی
کبھی موج صبا
گہوارہء جنباں ترا
نام
تھا صحن گلستاں
میں گل خنداں
ترا
تیرے
احساں کا نسیم
صبح کو اقرار
تھا
باغ
تیرے دم سے
گویا طبلہء عطار
تھا
تجھ
پہ برساتا ہے
شبنم دیدہء گریاں
مرا
ہے
نہاں تیری اداسی
میں دل ویراں
مرا
میری
بربادی کی ہے
چھوٹی سی اک
تصویر تو
خوا
ب میری زندگی
تھی جس کی
ہے تعبیر تو
ہمچو
نے از نیستان
خود حکایت می
کنم
بشنو
اے گل! از
جدائی ہا شکایت
می کنم











0 $type={blogger}:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔