https://www.highrevenuenetwork.com/yn6if2b2vi?key=3baa9b1915fea6b70c39fb465ca5cd9e | آپ کی اردو

جمعہ، 23 جون، 2023

پرندے کی فریاد

0 $type={blogger}

 

پرندے کی فریاد


آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانا

وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا

 

آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی

اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا

 

لگتی ہے چوٹ دل پر، آتا ہے یاد جس دم

شبنم کے آنسوئوں پر کلیوں کا مسکرانا

 

وہ پیاری پیاری صورت، وہ کامنی سی مورت

آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانا

 

آتی نہیں صدائیں اس کی مرے قفس میں

ہوتی مری رہائی اے کاش میرے بس میں

 

کیا بد نصیب ہوں میں گھر کو ترس رہا ہوں

ساتھی تو ہیں وطن میں، میں قید میں پڑا ہوں

 

آئی بہار کلیاں پھولوں کی ہنس رہی ہیں

میں اس اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہوں

 

اس قید کا الہی! دکھڑا کسے سنائوں

ڈر ہے یہیں قفسں میں میں غم سے مر نہ جائوں

 

جب سے چمن چھٹا ہے، یہ حال ہو گیا ہے

دل غم کو کھا رہا ہے، غم دل کو کھا رہا ہے

 

گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے

دکھے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے

 

آزاد مجھ کو کر دے، او قید کرنے والے!

میں بے زباں ہوں قیدی، تو چھوڑ کر دعا لے

 

 

ہفتہ، 17 جون، 2023

ایک مکڑا اور مکھی

0 $type={blogger}

 

ایک مکڑا اور مکھی

ایک دن کسی مکھی سے یہ کہنے لگا مکڑا

اس راہ سے ہوتا ہے گزر روز تمھارا

 

لیکن مری کٹیا کی نہ جاگی کبھی قسمت

بھولے سے کبھی تم نے یہاں پاؤں نہ رکھا

 

غیروں سے نہ ملیے تو کوئی بات نہیں ہے

اپنوں سے مگر چاہیئے یوں کھنچ کے نہ رہنا

 

آؤ جو مرے گھر میں تو عزت ہے یہ  میری

وہ سامنے سیڑھی ہے جو منظور ہو آنا

 

مکھی نے سنی بات جو مکڑے کی تو بولی

حضرت! کسی نادان کو دیجیے گا یہ دھوکا

 

اس جال میں مکھی کبھی انے کی نہیں ہے

جو آپ کی سیڑھی پہ چرھا، پھر نہیں اترا

 

مکڑے نے کہا واہ! ریبی مجھے سمجھے

تم سا کوئی نادا ن زمانے میں کوئی نہ ہو گا

 

منظور تمھاری مجھے خاطر تھی وگرنہ

کچھ فائدہ اپنا تو مرا اس میں نہیں تھا

 

اڑتی ہوئی آئی ہو خدا جانے کہاں سے

ٹھہرو جو  مرے گھر میں تو ہے اس میں برا کیا!

 

اس  گھر میں کئی تم کو دکھانے کی ہیں چیزیں

باہر سے نظر آتا ہے چھوٹی سی یہ کٹیا

لٹکے ہوئے دروازوں پہ باریک ہیں پردے

دیواروں کو آئینوں سے ہے میں نے سجایا

 

مہمانوں کے آرام کو حاضر ہیں بچھونے

ہر شخص کو ساماں یہ میسر نہیں ہوتا

 

مکھی نے کہا خیر، یہ سب ٹھیک ہے لیکن

میں آپ کے گھر آؤں ، یہ امید نہ رکھنا

 

ان نرم بچھونوں سے خدا مجھ کو بچائے

سو جائے کوئی ان پہ تو پھر اُٹھ نہیں سکتا

 

مکڑے نے کہا دل میں سنی بات جو اس کی

پھانسوں اسے کس طرح یہ کمبخت ہے دانا

 

سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں

دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندہ

 

یہ سوچ کے مکھی سے کہا اس نے بڑی بی!

اللہ نے بخشا ہے بڑا آپ کو رتبہ

 

ہوتی ہے اسے آ پ کی صورت سے محبت

ہو جس نے کبھی ایک نظر آپ کو دیکھا

 

آنکھیں ہیں کہ ہیرے کی چمکتی ہوئی کنیاں

سر آپ کا اللہ نے کلفی سے سجایا

 

یہ حسن، یہ پوشاک، یہ خوبی، یہ صفائی

پھر اس پہ قیامت ہے یہ اُڑتے ہوئے گانا

 

مکھی نے سنی جب یہ خوشامد تو پسیجی

بولی کہ نہیں آپ سے مجھ کو کوئی کھٹکا

 

انکار کی عادت کو سمجھتی ہوں بُرا میں

سچ یہ ہے کہ دل توڑنا اچھا نہیں ہوتا

 

یہ بات کہی اور اُڑی اپنی جگہ سے

پاس آئی تو مکڑے نے اچھل کر اسے پکڑا

 

بھوکا تھا کئی روز سے اب ہاتھ جو آئی

آرام سے گھر بیٹھ کے مکھی کو اُڑایا

 

 

 

جمعہ، 16 جون، 2023

چاند

0 $type={blogger}

 



چاند

 

میرے ویرانے سے کوسوں دور ہے تیرا وطن

ہے مگر دریائے دل تیری کشش سے موجزن

 

قصد کس محفل کا ہے؟ آتا ہے کس محفل سے تو؟

زردرو شاید ہوا رنج رہ منزل سے تو

 

آفرینش میں سراپا نور، ظلمت ہوںمیں

اس سیہ روزی پہ لیکن تیرا ہم قسمت ہوں میں

 

آہ میں جلتا ہوں سوز اشتیاق دید سے

تو سراپا سوز داغ منت خورشید سے

 

ایک حلقے پر اگر قائم تیری رفتار ہے

میر ی گردش بھی مثال گردش پرکار ہے

 

 

زندگی کی رہ میں سرگرداں ہے تو، حیراں ہوںمیں

تو فروزاںمحفل ہستی میں ہے، سوزاں ہوںمیں

 

میں رہ منزل میں ہوں، تو بھی رہ  منزل میں ہیں

تیری محفل میں جو خاموشی ہے ، میرےدل میں ہے

 

تو طلب خو ہے تو میرا بھی یہی دستور ہے

چاندنی ہے نور تیرا، عشق میرا نور ہے

 

انجمن ہے ایک میری  بھی جہاں رہتا ہوں میں

بزم میں اپنی اگر یکتا ہے تو، تنہا ہوں میں

 

مہر کا پرتو ترے حق  میں ہے پیغام اجل

محو کردیاتاہے مجھ کو جلوہِ حسن ِ ازل

 

پھر بھی  اے ماہِ مبیں!میں اور ہوں تو اور ہے

دردجس پہلو میں اٹھتا ہو وہ پہلو اور ہے

 

گرچہ میں ظلمت سراپا ہوں، سراپا نور تو

سینکڑوں منزل ہےذوق آگہی سےدور تو

 

جو مری ہستی کا مقصد ہے، مجھے معلوم ہے

یہ چمک وہ ہے،جبیں جس سے تری محروم ہے

جمعرات، 15 جون، 2023

ابر

0 $type={blogger}

 

ابر

اٹھی پھر آج وہ پورب سے کالی کالی گھٹا

سیاہ پوش ہوا پھر پہاڑ سربن کا

 

نہاں ہو جو رخ مہر زیر دامن ابر

ہوائے سرد بھی آئی سوار تو سن ابر

 

گرج کا شور نہیں ہے، خموش ہے یہ گھٹا

عجیب مے کدہ ِبے خروش ہے یہ گھٹا

 

چمن  میں حکم نشاط مدام لائی ہے

قبائے گل میں گہر ٹانکنے کو آئی ہے

 

جو پھول مہر کی گرمی سے سو چلے تھے، اٹھے

زمیں کی گود میں جو پڑ کے سورہے تھے،اٹھے

 

ہو ا کے زور سے ابھرا، بڑھا، اڑا بادل

اٹھی وہ اور گھٹا، لو!برس پڑ ا بادل

عجیب خیمہ ہے کہسار کے نہالوں کا

یہیں قیام ہو وادی میں پھرنے والوں کا

 

آفتاب صبح

0 $type={blogger}

 



آفتاب صبح


شورش میخانہ انساں سے بالاتر ہے تو

زینت بزم فلک ہو جس سے وہ ساغر ہے تو

 

ہو در گوش عروس صبح وہ گوہر ہے تو

جس پہ سیمائے افق نازاں ہووہ زیور ہے تو

 

صفحہ ایام سے داغ مداددشب مٹا

آسماں سے نقش باطل کی طرح کوکب مٹا

 

حسن تیرا جب ہوا بام فلک سے جلوہ گر

آنکھ سے اڑتا ہے یک دم خواب کی مے کا اثر

 

نور سے معمور ہوجاتا ہے دامان نظر

کھولتی ہے چشم ظاہر کو ضیاء تیر ی مگر

 

ڈھونڈتی ہیں جس کو آنکھیں وہ تماشا چاہیے

چشم باطن جس سے کھل جائے وہ جلوا چاہیئے

شوق آزادی کے دنیا میں نہ نکلے حوصلے

زندگی بھر قید زنجیر تعلق میں رہے

 

زیرو بالا ایک ہیں تیری نگاہوں کے لیے

آرزو ہے کچھااسی چشم تماشا کی مجھے

 

آنکھ میری اور کے غم میں سرشک آباد ہو

امتیاز ملت و آئیں سےدل آزاد ہو

 

بستہ رنگ خصوصیت نہ ہو میری زباں

نوع انساں قوم ہومیری،وطن میرا جہاں

 

دیدہ باطن پہ رازنظم قدرت ہو عیاں

ہو شناسائے فلک شمع تخیل کا دھواں

 

عقدہ اضداد کی کاوش نہ تڑپائے مجھے

حسن عشق انگیزہر شے میں نظر آئے مجھے

 

صدمہ آجائے ہوا سےگل کی پتی کو اگر

اشک بن کر میری آنکھوں سے ٹپک جائے اثر

 

دل میں ہو سوز محبت کا وہ چھوٹا سا شرر

نور سے جس کے ملے راز حقیقت کی خبر

 

شاہد قدرت کا آئینہ ہو ، دل میرا نہ ہو

سر میں جز ہمدردی انساں کوئی سودا نہ ہو

 

تو اگر زحمت کش ہنگامہ عالم نہیں

یہ فضیلت نشاں اے نیر اعظم نہیں

 

اپنے حسن عالم آرا سے جو تو محرم نہیں

ہمسر یک ذرہ خاک در آدم نہیں

 

نور مسجود ملک گرم تماشا ہی رہا

اور تو منت پذیر صبح فردا ہی رہا

 

آرزو نور حقیقت کی ہمارے دل میں ہے

لیلی ذوق طلب کا گھر اسی  محمل میں ہے

 

کس قدر لذت کشود عقدہ مشکل میں ہے

لطف صد حاصل ہماری سعی بے حاصل میں ہے

 

درد استفہام سے واقف ترا پہلو نہیں

جستجو ئے راز قدرت کا شناسا تو نہیں

 

موج دریا

0 $type={blogger}

 



موج دریا

مضطرب رکھتا ہے میرا دل بے تاب مجھے

عین ہستی ہے تڑپ صورت سیماب مجھے

 

موج ہے نام مرا، بحر ہے پایاب مجھے

ہونہ زنجیر کبھی حلقہِ گرداب مجھے

 

آب میں مثل ہو ا جاتا ہے تو سن میرا

خار  ماہی سے نہ اٹکا کبھی دامن مرا

 

میں اچھلتی ہوں کبھی جذب مہ  کامل سے

جوش میں سر کو پٹکتی ہوں کبھی ساحل سے

 

ہوں وہ رہرو کہ محبت ہے مجھے منزل سے

کیوں تڑپتی ہوں ، یہ پوچھے کوئی مرے دل سے

 

زحمت تنگی دریا سےگریزاں ہوں میں

وسعت بحر کی فرقت میں پریشاں ہوں میں

 

فیچر پوسٹیں

 
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});