https://www.highrevenuenetwork.com/yn6if2b2vi?key=3baa9b1915fea6b70c39fb465ca5cd9e | آپ کی اردو

اتوار، 29 اکتوبر، 2023

وصال (ٓٓاپ کی اردو)

0 $type={blogger}

وصال

 

جستجو جس گل کی تڑپاتی تھی اے بلبل مجھے
خوبی قسمت سے آخر مل گیا وہ گل مجھے


 
خود
 تڑپتا تھا، چمن والوں کو تڑپاتا تھا میں
تجھ کو جب رنگیں نوا پاتا تھا، شرماتا تھا میں


 
میرے
 پہلو میں دل مضطر نہ تھا، سیماب تھا
ارتکاب جرم الفت کے لیے بے تاب تھا


 
نامرادی
 محفل گل میں مری مشہور تھی
صبح میری آئنہ دار شب دیجور تھی


 
از
 نفس در سینہء خوں گشتہ نشتر داشتم
زیر خاموشی نہاں غوغائے محشر داشتم


 
اب
 تاثر کے جہاں میں وہ پریشانی نہیں
اہل گلشن پر گراں میری غزل خوانی نہیں


 
عشق
 کی گرمی سے شعلے بن گئے چھالے مرے
کھلیتے ہیں بجلیوں کے ساتھ اب نالے مرے


 
غازئہ
 الفت سے یہ خاک سیہ آئینہ ہے
اور آئینے میں عکس ہمدم دیرینہ ہے


  
قید میں آیا تو حاصل مجھ کو آزادی ہوئی
دل کے لٹ جانے سے میرے گھر کی آبادی ہوئی


 
ضو
 سے اس خورشید کی اختر مرا تابندہ ہے
چاندنی جس کے غبار راہ سے شرمندہ ہے


 
یک
 نظر کر دی و آداب فنا آموختی
اے خنک روزے کہ خاشاک مرا واسوختی


جمعہ، 27 اکتوبر، 2023

سسلي جزيرہ صقليہ

0 $type={blogger}

 سسلي جزيرہ صقليہ

 

رو لے اب دل کھول کر اے دیدہء خوننابہ بار

وہ نظر آتا ہے تہذیب حجازی کا مزار

 

تھا یہاں ہنگامہ ان صحرا نشینوں کا کبھی

بحر بازی گاہ تھا جن کے سفینوں کا کبھی

 

زلزلے جن سے شہنشاہوں کے درباروں میں تھے

بجلیوں کے آشیانے جن کی تلواروں میں تھے

 

اک جہان تازہ کا پیغام تھا جن کا ظہور

کھا گئی عصر کہن کو جن کی تیغ ناصبور

 

مردہ عالم زندہ جن کی شورش قم سے ہوا

آدمی آزاد زنجیر توہم سے ہوا

 

غلغلوں سے جس کے لذت گیر اب تک گوش ہے

کیا وہ تکبیر اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہے؟

 

آہ اے سسلی! سمندرکی ہے تجھ سے آبرو

رہنما کی طرح اس پانی کے صحرا میں ہے تو

 

زیب تیرے خال سے رخسار دریا کو رہے

تیری شمعوں سے تسلی بحر پیما کو رہے

 

ہو سبک چشم مسافر پر ترا منظر مدام

موج رقصاں تیرے ساحل کی چٹانوں پر مدام

 

تو کبھی اس قوم کی تہذیب کا گہوارہ تھا

حسن عالم سوز جس کا آتش نظارہ تھا

 

نالہ کش شیراز کا بلبل ہوا بغداد پر

داغ رویا خون کے آنسو جہاں آباد پر

 

آسماں نے دولت غرناطہ جب برباد کی

ابن بدروں کے دل ناشاد نے فریاد کی

 

غم نصیب اقبال کو بخشا گیا ماتم ترا

چن لیا تقدیر نے وہ دل کہ تھا محرم ترا

 

ہے ترے آثار میں پوشیدہ کس کی داستاں

تیرے ساحل کی خموشی میں ہے انداز بیاں

 

درد اپنا مجھ سے کہہ، میں بھی سراپا درد ہوں

جس کی تو منزل تھا، میں اس کارواں کی گرد ہوں

 

رنگ تصویر کہن میں بھر کے دکھلا دے مجھے

قصہ ایام سلف کا کہہ کے تڑپا دے مجھے

 

میں ترا تحفہ سوئے ہندوستاں لے جاوں گا

خود یہاں روتا ہوں، اوروں کو وہاں رلوائوں گا

 

فیچر پوسٹیں

 
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});