وصال
جستجو جس گل کی تڑپاتی تھی اے بلبل مجھے
خوبی قسمت سے آخر مل گیا وہ گل مجھے
تجھ کو جب رنگیں نوا پاتا تھا، شرماتا تھا میں
ارتکاب جرم الفت کے لیے بے تاب تھا
صبح میری آئنہ دار شب دیجور تھی
زیر خاموشی نہاں غوغائے محشر داشتم
اہل گلشن پر گراں میری غزل خوانی نہیں
کھلیتے ہیں بجلیوں کے ساتھ اب نالے مرے
اور آئینے میں عکس ہمدم دیرینہ ہے
قید میں آیا تو حاصل مجھ کو آزادی ہوئی
دل کے لٹ جانے سے میرے گھر کی آبادی ہوئی
چاندنی جس کے غبار راہ سے شرمندہ ہے
اے خنک روزے کہ خاشاک مرا واسوختی










0 $type={blogger}:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔