https://www.highrevenuenetwork.com/yn6if2b2vi?key=3baa9b1915fea6b70c39fb465ca5cd9e | آپ کی اردو

منگل، 4 جولائی، 2023

غزل (9) جنھیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں

0 $type={blogger}

 

 غزل (9)

جنھیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں 

جنھیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں

وہ نکلے میرے ظلمت خانہ دل کے مکینوں میں

 

حقیقت اپنی آنکھوں پر نمایاں جب ہوئی اپنی

مکاں نکلا ہمارے خانہ دل کے مکینوں میں

 

اگر کچھ آشنا ہوتا مذاق جبہہ سائی سے

تو سنگ آستاں کعبہ جا ملتا جبینوں میں

 

کبھی اپنا بھی نظارہ کیا ہے تو نے اے مجنوں

کہ لیلی کی طرح تو خود بھی ہے محمل نشینوں میں

 

مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اڑتے جاتے ہیں

مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں

 

مجھے روکے گا تو اے ناخدا کیا غرق ہونے سے

کہ جن کو ڈوبنا ہو، ڈوب جاتے ہیں سفینوں میں

 

چھپایا حسن کو اپنے کلیم اللہ سے جس نے

وہی ناز آفریں ہے جلوہ پیرا نازنینوں میں

 

جلا سکتی ہے شمع کشتہ کو موج نفس ان کی

الہی! کیا چھپا ہوتا ہے اہل دل کے سینوں میں

 

تمنا درد دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی

نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں

 

نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی، ارادت ہو تو دیکھ ان کو

ید بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں

 

ترستی ہے نگاہ نا رسا جس کے نظارے کو

وہ رونق انجمن کی ہے انھی خلوت گزینوں میں

 

کسی ایسے شرر سے پھونک اپنے خرمن دل کو

کہ خورشید قیامت بھی ہو تیرے خوشہ چینوں میں

 

محبت کے لیے دل ڈھونڈ کوئی ٹوٹنے والا

یہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوں میں

 

سراپا حسن بن جاتا ہے جس کے حسن کا عاشق

بھلا اے دل حسیں ایسا بھی ہے کوئی حسینوں میں

 

پھڑک اٹھا کوئی تیری ادائے 'ما عرفنا' پر

ترا رتبہ رہا بڑھ چڑھ کے سب ناز آفرینوں میں

 

نمایاں ہو کے دکھلا دے کبھی ان کو جمال اپنا

بہت مدت سے چرچے ہیں ترے باریک بینوں میں

 

خموش اے دل!، بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا

ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

 

برا سمجھوں انھیں مجھ سے تو ایسا ہو نہیں سکتا

کہ میں خود بھی تو ہوں اقبال اپنے نکتہ چینوں میں

 

 

غزل(8) کہوں کیا آرزوئے بے دلی مجھ کو کہاں تک ہے

0 $type={blogger}

 

   غزل(8)

 

کہوں کیا آرزوئے بے دلی مجھ کو کہاں تک ہے

مرے بازار کی رونق ہی سودائے زیاں تک ہے

 

وہ مے کش ہوں فروغ مے سے خود گلزار بن جائوں

ہوائے گل فراق ساقی نامہرباں تک ہے

 

چمن افروز ہے صیاد میری خوشنوائی تک

رہی بجلی کی بے تابی، سو میرے آشیاں تک ہے

 

وہ مشت خاک ہوں، فیض پریشانی سے صحرا ہوں

نہ پوچھو میری وسعت کی، زمیں سے آ سماں تک ہے

 

جرس ہوں، نالہ خوابیدہ ہے میرے ہر رگ و پے میں

یہ خاموشی مری وقت رحیل کارواں تک ہے

 

سکون دل سے سامان کشود کار پیدا کر

کہ عقدہ خاطر گرداب کا آب رواں تک ہے

 

چمن زار محبت میں خموشی موت ہے بلبل!

یہاں کی زندگی پابندی رسم فغاں تک ہے

 

جوانی ہے تو ذوق دید بھی، لطف تمنا بھی

ہمارے گھر کی آبادی قیام میہماں تک ہے

 

زمانے بھر میں رسوا ہوں مگر اے وائے نادانی!

سمجھتا ہوں کہ میرا عشق میرے رازداں تک ہے

 

 

غزل (7) ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی

0 $type={blogger}

 

  غزل        (7)

 

ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی

ہو دیکھنا تو دیدہء دل وا کرے کوئی

 

منصور کو ہوا لب گویا پیام موت

اب کیا کسی کے عشق کا دعوی کرے کوئی

 

ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر

ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی

 

میں انتہائے عشق ہوں، تو انتہائے حسن

دیکھے مجھے کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی

 

عذر آفرین جرم محبت ہے حسن دوست

محشر میں عذر تازہ نہ پیدا کرے کوئی

 

چھپتی نہیں ہے یہ نگہ شوق ہم نشیں!

پھر اور کس طرح انھیں دیکھا کر ے کوئی

 

اڑ بیٹھے کیا سمجھ کے بھلا طور پر کلیم

طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئی

 

نظارے کو یہ جنبش مژگاں بھی بار ہے

نرگس کی آنکھ سے تجھے دیکھا کرے کوئی

 

کھل جائیں، کیا مزے ہیں تمنائے شوق میں

دو چار دن جو میری تمنا کرے کوئی

 

فیچر پوسٹیں

 
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});