https://www.highrevenuenetwork.com/yn6if2b2vi?key=3baa9b1915fea6b70c39fb465ca5cd9e | آپ کی اردو

منگل، 4 جولائی، 2023

غزل(8) کہوں کیا آرزوئے بے دلی مجھ کو کہاں تک ہے

0 $type={blogger}

 

   غزل(8)

 

کہوں کیا آرزوئے بے دلی مجھ کو کہاں تک ہے

مرے بازار کی رونق ہی سودائے زیاں تک ہے

 

وہ مے کش ہوں فروغ مے سے خود گلزار بن جائوں

ہوائے گل فراق ساقی نامہرباں تک ہے

 

چمن افروز ہے صیاد میری خوشنوائی تک

رہی بجلی کی بے تابی، سو میرے آشیاں تک ہے

 

وہ مشت خاک ہوں، فیض پریشانی سے صحرا ہوں

نہ پوچھو میری وسعت کی، زمیں سے آ سماں تک ہے

 

جرس ہوں، نالہ خوابیدہ ہے میرے ہر رگ و پے میں

یہ خاموشی مری وقت رحیل کارواں تک ہے

 

سکون دل سے سامان کشود کار پیدا کر

کہ عقدہ خاطر گرداب کا آب رواں تک ہے

 

چمن زار محبت میں خموشی موت ہے بلبل!

یہاں کی زندگی پابندی رسم فغاں تک ہے

 

جوانی ہے تو ذوق دید بھی، لطف تمنا بھی

ہمارے گھر کی آبادی قیام میہماں تک ہے

 

زمانے بھر میں رسوا ہوں مگر اے وائے نادانی!

سمجھتا ہوں کہ میرا عشق میرے رازداں تک ہے

 

 

غزل (7) ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی

0 $type={blogger}

 

  غزل        (7)

 

ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی

ہو دیکھنا تو دیدہء دل وا کرے کوئی

 

منصور کو ہوا لب گویا پیام موت

اب کیا کسی کے عشق کا دعوی کرے کوئی

 

ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر

ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی

 

میں انتہائے عشق ہوں، تو انتہائے حسن

دیکھے مجھے کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی

 

عذر آفرین جرم محبت ہے حسن دوست

محشر میں عذر تازہ نہ پیدا کرے کوئی

 

چھپتی نہیں ہے یہ نگہ شوق ہم نشیں!

پھر اور کس طرح انھیں دیکھا کر ے کوئی

 

اڑ بیٹھے کیا سمجھ کے بھلا طور پر کلیم

طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئی

 

نظارے کو یہ جنبش مژگاں بھی بار ہے

نرگس کی آنکھ سے تجھے دیکھا کرے کوئی

 

کھل جائیں، کیا مزے ہیں تمنائے شوق میں

دو چار دن جو میری تمنا کرے کوئی

 

غزل (6) انوکھی وضع ہے، سارے زمانے سے نرالے ہیں

0 $type={blogger}

 

غزل (6)

 

انوکھی وضع ہے، سارے زمانے سے نرالے ہیں

یہ عاشق کون سی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں

 

علاج درد میں بھی درد کی لذت پہ مرتا ہوں

جو تھے چھالوں میں کانٹے، نوک سوزن سے نکالے ہیں

 

پھلا پھولا رہے یا رب! چمن میری امیدوں کا

جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں

 

رلاتی ہے مجھے راتوں کو خاموشی ستاروں کی

نرالا عشق ہے میرا، نرالے میرے نالے ہیں

 

نہ پوچھو مجھ سے لذت خانماں برباد رہنے کی

نشیمن سینکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں

 

نہیں بیگانگی اچھی رفیق راہ منزل سے

ٹھہر جا اے شرر، ہم بھی تو آخر مٹنے والے ہیں

 

امید حور نے سب کچھ سکھا رکھا ہے واعظ کو

یہ حضرت دیکھنے میں سیدھے سادے، بھولے بھالے ہیں

 

مرے اشعار اے اقبال کیوں پیارے نہ ہوں مجھ کو

مرے ٹوٹے ہوئے دل کے یہ درد انگیز نالے ہیں

 

فیچر پوسٹیں

 
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});