https://www.highrevenuenetwork.com/yn6if2b2vi?key=3baa9b1915fea6b70c39fb465ca5cd9e | آپ کی اردو

بدھ، 28 جون، 2023

بچہ اور شمع

0 $type={blogger}

 



بچہ اور شمع

 

کیسی حیرانی ہے یہ اے طفلک پروانہ خو

شمع کے شعلوں کو گھڑیوں دیکھتا رہتا ہے تو

 

یہ مری آغوش میں بیٹھے ہوئے جنبش ہے کیا

روشنی سے کیا بغل گیری ہے تیرا مدعا؟

 

اس نظارے سے ترا ننھا سا دل حیران ہے

یہ کسی دیکھی ہوئی شے کی مگر پہچان ہے

 

شمع اک شعلہ ہے لیکن تو سراپا نور ہے

آہ! اس محفل میں یہ عریاں ہے تو مستور ہے

 

دست قدرت نے اسے کیا جانے کیوں عریاں کیا!

تجھ کو خاک تیرہ کے فانوس میں پنہاں کیا

 

نور تیرا چھپ گیا زیر نقاب آگہی

ہے غبار دیدہء بینا حجاب آگہی

 

زندگانی جس کو کہتے ہیں فراموشی ہے یہ

خواب ہے، غفلت ہے، سرمستی ہے، بے ہوشی ہے یہ

 

محفل قدرت ہے اک دریائے بے پایان حسن

آنکھ اگر دیکھے تو ہر قطرے میں ہے طوفان حسن

 

حسن، کوہستاں کی ہیبت ناک خاموشی میں ہے

مہر کی ضوگستری، شب کی سیہ پوشی میں ہے

 

آسمان صبح کی آئینہ پوشی میں ہے یہ

شام کی ظلمت، شفق کی گل فرو شی میں ہے یہ

 

عظمت دیرینہ کے مٹتے ہوئے آثار میں

طفلک ناآشنا کی کوشش گفتار میں

 

ساکنان صحن گلشن کی ہم آوازی میں ہے

ننھے ننھے طائروں کی آشیاں سازی میں ہے

 

چشمہ کہسار میں، دریا کی آزادی میں حسن

شہر میں، صحرا میں، ویرانے میں، آبادی میں حسن

 

روح کو لیکن کسی گم گشتہ شے کی ہے ہوس

ورنہ اس صحرا میں کیوں نالاں ہے یہ مثل جرس

 

حسن کے اس عام جلوے میں بھی یہ بے تاب ہے

زندگی اس کی مثال ماہی بے آب ہے

 

منگل، 27 جون، 2023

کنار راوی

0 $type={blogger}

 

کنار راوی

 

سکوت شام میں محو سرود ہے راوی

نہ پوچھ مجھ سے جو ہے کیفیت مرے دل کی

 

پیام سجدے کا یہ زیر و بم ہوا مجھ کو

جہاں تمام سواد حرم ہوا مجھ کو

 

سر کنارہ آب رواں کھڑا ہوں میں

خبر نہیں مجھے لیکن کہاں کھڑا ہوں میں

 

شراب سرخ سے رنگیں ہوا ہے دامن شام

لیے ہے پیر فلک دست رعشہ دار میں جام

 

عدم کو قافلہ روز تیز گام چلا

شفق نہیں ہے، یہ سورج کے پھول ہیں گویا


کھڑے ہیں دور وہ عظمت فزائے تنہائی

منار خواب گہ شہسوار چغتائی

 

فسانہء ستم انقلاب ہے یہ محل

کوئی زمان سلف کی کتاب ہے یہ محل

 

مقام کیا ہے سرود خموش ہے گویا

شجر، یہ انجمن بے خروش ہے گویا

 

رواں ہے سینہء دریا پہ اک سفینہ تیز

ہوا ہے موج سے ملاح جس کا گرم ستیز

 

سبک روی میں ہے مثل نگاہ یہ کشتی

نکل کے حلقہ حد نظر سے دور گئی

 

جہاز زندگی آدمی رواں ہے یونہی

ابد کے بحر میں پیدا یونہی، نہاں ہے یونہی

 

شکست سے یہ کبھی آشنا نہیں ہوتا

نظر سے چھپتا ہے لیکن فنا نہیں ہوتا

 

 

فیچر پوسٹیں

 
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});