پیام
عشق نے کر دیا تجھے ذوقِ تپش سے آشنا
بزم کو مثل شمع بزم حاصل سوز و ساز دے
شانِ کرم پہ ہے مدار عشقِ گرہ کشاے کا
دیر و حرم کی قید کیا! جس کو وہ بے نیاز دے
صورتِ شمع نور کی ملتی نہیں قبا اُسے
جس کو خدا نہ دہر میں گریۂ جاں گداز دے
تارے میں وہ، قمر میں وہ، جلوہ گہِ سحر میں وہ
چشم نظارہ میں نہ تو سرمۂ امتیاز دے
عشق بلند بال ہے رسم و رہِ نیاز سے
حسن ہے مست ناز اگر تو بھی جوابِ ناز دے
پیر مغاں! فرنگ کی مے کا نشاط ہے اثر
اس میں وہ کیف غم نہیں، مجھ کو تو خانہ ساز دے
تجھ کو خبر نہیں ہے کیا! بزم کہن بدل گئی
اب نہ خدا کے واسطے ان کو مے مجاز دے











0 $type={blogger}:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔