https://www.highrevenuenetwork.com/yn6if2b2vi?key=3baa9b1915fea6b70c39fb465ca5cd9e | آپ کی اردو

اتوار، 5 نومبر، 2023

عبدالقادر کے نام | اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر

0 $type={blogger}

عبدالقادر کے نام

 

 

اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر

بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں

 

ایک فریاد ہے مانند سپند اپنی بساط

اسی ہنگامے سے محفل تہ و بالا کر دیں

 

اہل محفل کو دکھا دیں اثر صیقل عشق

سنگ امروز کو آئینہ فردا کر دیں

 

جلوہ یوسف گم گشتہ دکھا کر ان کو

تپش آمادہ تر از خون زلیخا کر دیں

 

اس چمن کو سبق آئین نمو کا دے کر

قطرہ شبنم بے مایہ کو دریا کر دیں

 

رخت جاں بت کدہء چیں سے اٹھا لیں اپنا

سب کو محو رخ سعدی و سلیمی کر دیں

 

دیکھ! یثرب میں ہوا ناقہ لیلی بیکار

قیس کو آرزوئے نو سے شناسا کر دیں

 

بادہ دیرینہ ہو اور گرم ہو ایسا کہ گداز

جگر شیشہ و پیمانہ و مینا کر دیں

 

گرم رکھتا تھا ہمیں سردی مغرب میں جو داغ

چیر کر سینہ اسے وقف تماشا کر دیں

 

شمع کی طرح جییں بزم گہ عالم میں

خود جلیں، دیدہ اغیار کو بینا کر دیں

 

ہر چہ در دل گذرد وقف زباں دارد شمع

سوختن نیست خیالے کہ نہاں دارد شمع

 

عا شق ہر جائی |ہے عجب مجموعہء اضداد اے اقبال تو رونق ہنگامہء محفل بھی ہے، تنہا بھی ہے

0 $type={blogger}

عا شق ہر جائی

 

(1)

 

ہے عجب مجموعہء اضداد اے اقبال تو

رونق ہنگامہء محفل بھی ہے، تنہا بھی ہے

 

تیرے ہنگاموں سے اے دیوانہ رنگیں نوا!

زینت گلشن بھی ہے، آرائش صحرا بھی ہے

 

ہم نشیں تاروں کا ہے تو رفعت پرواز سے

اے زمیں فرسا، قدم تیرا فلک پیما بھی ہے

 

عین شغل میں پیشانی ہے تیری سجدہ ریز 

کچھ ترے مسلک میں رنگ مشرب مینا بھی ہے

 

مثل بوئے گل لباس رنگ سے عریاں ہے تو

ہے تو حکمت آفریں، لیکن تجھے سودا بھی ہے

 

جانب منزل رواں بے نقش پا مانند موج

اور پھر افتادہ مثل ساحل دریا بھی ہے

 

حسن نسوانی ہے بجلی تیری فطرت کے لیے

پھر عجب یہ ہے کہ تیرا عشق بے پروا بھی ہے


تیری ہستی کا ہے آئین تفنن پر مدار

تو کبھی ایک آستانے پر جبیں فرسا بھی ہے ؟

 

ہے حسینوں میں وفا نا آشنا تیرا خطاب

اے تلون کیش! تو مشہور بھی، رسوا بھی ہے

 

لے کے آیا ہے جہاں میں عادت سیماب تو

تیری بے تابی کے صدقے، ہے عجب بے تاب تو

                                           

 (2)

 

عشق کی آشفتگی نے کر دیا صحرا جسے

مشت خاک ایسی نہاں زیر قبا رکھتا ہوں میں

 

ہیں ہزاروں اس کے پہلو، رنگ ہر پہلو کا اور

سینے میں ہیرا کوئی ترشا ہوا رکھتا ہوں میں

 

دل نہیں شاعر کا، ہے کیفیتوں کی رستخیز

کیا خبر تجھ کو درون سینہ کیا رکھتا ہوں میں

 

آرزو ہر کیفیت میں اک نئے جلوے کی ہے

مضطرب ہوں، دل سکوں نا آشنا رکھتا ہوں میں

 

گو حسین تازہ ہے ہر لحظہ مقصود نظر

حسن سے مضبوط پیمان وفا رکھتا ہوں میں

 

بے نیازی سے ہے پیدا میری فطرت کا نیاز

سوز و ساز جستجو مثل صبا رکھتا ہوں میں

 

موجب تسکیں تماشائے شرار جستہ اے

ہو نہیں سکتا کہ دل برق آشنا رکھتا ہوں میں

 

ہر تقاضا عشق کی فطرت کا ہو جس سے خموش

آہ! وہ کامل تجلی مدعا رکھتا ہوں میں

 

جستجو کل کی لیے پھرتی ہے اجزا میں مجھے

حسن بے پایاں ہے، درد لادوا رکھتا ہوں میں

 

زندگی الفت کی درد انجامیوں سے ہے مری

عشق کو آزاد دستور وفا رکھتا ہوں میں

 

سچ اگر پوچھے تو افلاس تخیل ہے وفا

 

دل میں ہر دم اک نیا محشر بپا رکھتا ہوں میں

فیض ساقی شبنم آسا، ظرف دل دریا طلب

 

مجھ کو پیدا کر کے اپنا نکتہ چیں پیدا کیا

نقش ہوں، اپنے مصور سے گلا رکھتا ہوں میں

 

محفل ہستی میں جب ایسا تنک جلوہ تھا حسن

پھر تخیل کس لیے لا انتہا رکھتا ہوں میں

 

در بیابان طلب پیوستہ می کوشیم ما

موج بحریم و شکست خویش بر دوشیم ما

 

میں تو تلاش و جستجو کے صحرا میں مسلسل جد و جہد میں مصروف ہوں اور سمندر کی موجوں کی طرح اپنی شکست کا سامان خود اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتا ہوں۔

 

فیچر پوسٹیں

 
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});