https://www.highrevenuenetwork.com/yn6if2b2vi?key=3baa9b1915fea6b70c39fb465ca5cd9e | آپ کی اردو

پیر، 26 جون، 2023

انسان اور بزم قدرت

0 $type={blogger}

 

انسان اور بزم قدرت

 

صبح خورشید درخشاں کو جو دیکھا میں نے

بزم معمورہ ہستی سے یہ پوچھا میں نے

 

پر تو مہر کے دم سے ہے اجالا تیرا

سیم سیال ہے پانی ترے دریائوں کا

 

مہر نے نور کا زیور تجھے پہنایا ہے

تیری محفل کو اسی شمع نے چمکایا ہے

 

گل و گلزار ترے خلد کی تصویریں ہیں

یہ سبھی سورہء 'والشمس' کی تفسیریں ہیں

 

سرخ پوشاک ہے پھولوں کی، درختوں کی ہری

تیری محفل میں کوئی سبز، کوئی لال پری

 

ہے ترے خیمہء گردوں کی طلائی جھالر

بدلیاں لال سی آتی ہیں افق پر جو نظر

 

کیا بھلی لگتی ہے آنکھوں کو شفق کی لالی

مے گلرنگ خم شام میں تو نے ڈالی

پردہ نور میں مستور ہے ہر شے تیری

 

صبح اک گیت سراپا ہے تری سطوت کا

زیر خورشید نشاں تک بھی نہیں ظلمت کا


میں بھی آباد ہوں اس نور کی بستی میں مگر

جل گیا پھر مری تقدیر کا اختر کیونکر؟

 

نور سے دور ہوں ظلمت میں گرفتار ہوں میں

کیوں سیہ روز، سیہ بخت، سیہ کار ہوں میں؟

 

میں یہ کہتا تھا کہ آواز کہیں سے آئی

بام گردوں سے وہ یا صحن زمیں سے آئی

 

ہے ترے نور سے وابستہ مری بود و نبود

باغباں ہے تری ہستی پے گلزار وجود

 

انجمن حسن کی ہے تو، تری تصویر ہوں میں

عشق کا تو ہے صحیفہ، تری تفسیر ہوں میں

 

میرے بگڑے ہوئے کاموں کو بنایا تو نے

بار جو مجھ سے نہ اٹھا وہ اٹھایا تو نے

 

نور خورشید کی محتاج ہے ہستی میری

اور بے منت خورشید چمک ہے تری

 

ہو نہ خورشید تو ویراں ہو گلستاں میرا

منزل عیش کی جا نام ہو زنداں میرا

 

آہ! اے راز عیاں کے نہ سمجھے والے

حلقہ، دام تمنا میں الجھنے والے


ہائے غفلت کہ تری آنکھ ہے پابند مجاز

ناز زیبا تھا تجھے، تو ہے مگر گرم نیاز

 

تو اگر اپنی حقیقت سے خبردار رہے

نہ سیہ روز رہے پھر نہ سیہ کار رہے

 

گل رنگیں

0 $type={blogger}

 

گل رنگیں

 

تو شناسائے خراش عقدئہ مشکل نہیں

اے گل رنگیں ترے پہلو میں شاید دل نہیں

 

زیب محفل ہے، شریک شورش محفل نہیں

یہ فراغت بزم ہستی میں مجھے حاصل نہیں

 

اس چمن میں میں سراپا سوز و ساز آرزو

اور تیری زندگانی بے گداز آرزو

 

توڑ لینا شاخ سے تجھ کو مرا آئیں نہیں

یہ نظر غیر از نگاہ چشم صورت بیں نہیں

 

آہ! یہ دست جفاجو اے گل رنگیں نہیں

کس طرح تجھ کو یہ سمجھائوں کہ میں گلچیں نہیں

 

 

کام مجھ کو دیدئہ حکمت کے الجھیڑوں سے کیا

دیدئہ بلبل سے میں کرتا ہوں نظارہ ترا

 

سو زبانوں پر بھی خاموشی تجھے منظور ہے

راز وہ کیا ہے ترے سینے میں جو مستور ہے

 

میری صورت تو بھی اک برگ ریاض طور ہے

میں چمن سے دور ہوں تو بھی چمن سے دور ہے

 

مطمئن ہے تو، پریشاں مثل بو رہتا ہوں میں

زخمی شمشیر ذوق جستجو رہتا ہوں میں

 

یہ پریشانی مری سامان جمعیت نہ ہو

یہ جگر سوزی چراغ خانہ حکمت نہ ہو

 

ناتوانی ہی مری سرمایہ قوت نہ ہو

رشک جام جم مرا آ ینہ حیرت نہ ہو


یہ تلاش متصل شمع جہاں افروز ہے

توسن ادراک انساں کو خرام آموز ہے

فیچر پوسٹیں

 
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});