https://www.highrevenuenetwork.com/yn6if2b2vi?key=3baa9b1915fea6b70c39fb465ca5cd9e | آپ کی اردو

ہفتہ، 24 جون، 2023

ابر کوہسار

0 $type={blogger}

 

ابر کوہسار

 

ہے بلندی سے فلک بوس نشیمن میرا

ابر کہسار ہوں گل پاش ہے دامن میرا

 

کبھی صحرا، کبھی گلزار ہے مسکن میرا

شہر و ویرانہ مرا، بحر مرا، بن میرا

 

کسی وادی میں جو منظور ہو سونا مجھ کو

سبزہ کوہ ہے مخمل کا بچھونا مجھ کو

 

مجھ کو قدرت نے سکھایا ہے درافشاں ہونا

ناقہ شاہد رحمت کا حدی خواں ہونا

 

غم زدائے دل افسردہ دہقاں ہونا

رونق بزم جوانان گلستاں ہونا

 

بن کے گیسو رخ ہستی پہ بکھر جاتا ہوں

شانہ موجہ صرصر سے سنور جاتا ہوں

 

دور سے دیدہ امید کو ترساتا ہوں

کسی بستی سے جو خاموش گزر جاتا ہوں

 

سیر کرتا ہوا جس دم لب جو آتا ہوں

بالیاں نہر کو گرداب کی پہناتا ہوں

 

سبزہ مزرع نوخیز کی امید ہوں میں

زادہ بحر ہوں پروردہ خورشید ہوں میں

 

چشمہ کوہ کو دی شورش قلزم میں نے

اور پرندوں کو کیا محو ترنم میں نے

 

سر پہ سبزے کے کھڑے ہو کے کہا قم میں نے

غنچہ گل کو دیا ذوق تبسم میں نے

 

فیض سے میرے نمونے ہیں شبستانوں کے

جھونپڑے دامن کہسار میں دہقانوں کے

 

جمعہ، 23 جون، 2023

پرندے کی فریاد

0 $type={blogger}

 

پرندے کی فریاد


آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانا

وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا

 

آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی

اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا

 

لگتی ہے چوٹ دل پر، آتا ہے یاد جس دم

شبنم کے آنسوئوں پر کلیوں کا مسکرانا

 

وہ پیاری پیاری صورت، وہ کامنی سی مورت

آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانا

 

آتی نہیں صدائیں اس کی مرے قفس میں

ہوتی مری رہائی اے کاش میرے بس میں

 

کیا بد نصیب ہوں میں گھر کو ترس رہا ہوں

ساتھی تو ہیں وطن میں، میں قید میں پڑا ہوں

 

آئی بہار کلیاں پھولوں کی ہنس رہی ہیں

میں اس اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہوں

 

اس قید کا الہی! دکھڑا کسے سنائوں

ڈر ہے یہیں قفسں میں میں غم سے مر نہ جائوں

 

جب سے چمن چھٹا ہے، یہ حال ہو گیا ہے

دل غم کو کھا رہا ہے، غم دل کو کھا رہا ہے

 

گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے

دکھے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے

 

آزاد مجھ کو کر دے، او قید کرنے والے!

میں بے زباں ہوں قیدی، تو چھوڑ کر دعا لے

 

 

ہفتہ، 17 جون، 2023

ایک مکڑا اور مکھی

0 $type={blogger}

 

ایک مکڑا اور مکھی

ایک دن کسی مکھی سے یہ کہنے لگا مکڑا

اس راہ سے ہوتا ہے گزر روز تمھارا

 

لیکن مری کٹیا کی نہ جاگی کبھی قسمت

بھولے سے کبھی تم نے یہاں پاؤں نہ رکھا

 

غیروں سے نہ ملیے تو کوئی بات نہیں ہے

اپنوں سے مگر چاہیئے یوں کھنچ کے نہ رہنا

 

آؤ جو مرے گھر میں تو عزت ہے یہ  میری

وہ سامنے سیڑھی ہے جو منظور ہو آنا

 

مکھی نے سنی بات جو مکڑے کی تو بولی

حضرت! کسی نادان کو دیجیے گا یہ دھوکا

 

اس جال میں مکھی کبھی انے کی نہیں ہے

جو آپ کی سیڑھی پہ چرھا، پھر نہیں اترا

 

مکڑے نے کہا واہ! ریبی مجھے سمجھے

تم سا کوئی نادا ن زمانے میں کوئی نہ ہو گا

 

منظور تمھاری مجھے خاطر تھی وگرنہ

کچھ فائدہ اپنا تو مرا اس میں نہیں تھا

 

اڑتی ہوئی آئی ہو خدا جانے کہاں سے

ٹھہرو جو  مرے گھر میں تو ہے اس میں برا کیا!

 

اس  گھر میں کئی تم کو دکھانے کی ہیں چیزیں

باہر سے نظر آتا ہے چھوٹی سی یہ کٹیا

لٹکے ہوئے دروازوں پہ باریک ہیں پردے

دیواروں کو آئینوں سے ہے میں نے سجایا

 

مہمانوں کے آرام کو حاضر ہیں بچھونے

ہر شخص کو ساماں یہ میسر نہیں ہوتا

 

مکھی نے کہا خیر، یہ سب ٹھیک ہے لیکن

میں آپ کے گھر آؤں ، یہ امید نہ رکھنا

 

ان نرم بچھونوں سے خدا مجھ کو بچائے

سو جائے کوئی ان پہ تو پھر اُٹھ نہیں سکتا

 

مکڑے نے کہا دل میں سنی بات جو اس کی

پھانسوں اسے کس طرح یہ کمبخت ہے دانا

 

سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں

دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندہ

 

یہ سوچ کے مکھی سے کہا اس نے بڑی بی!

اللہ نے بخشا ہے بڑا آپ کو رتبہ

 

ہوتی ہے اسے آ پ کی صورت سے محبت

ہو جس نے کبھی ایک نظر آپ کو دیکھا

 

آنکھیں ہیں کہ ہیرے کی چمکتی ہوئی کنیاں

سر آپ کا اللہ نے کلفی سے سجایا

 

یہ حسن، یہ پوشاک، یہ خوبی، یہ صفائی

پھر اس پہ قیامت ہے یہ اُڑتے ہوئے گانا

 

مکھی نے سنی جب یہ خوشامد تو پسیجی

بولی کہ نہیں آپ سے مجھ کو کوئی کھٹکا

 

انکار کی عادت کو سمجھتی ہوں بُرا میں

سچ یہ ہے کہ دل توڑنا اچھا نہیں ہوتا

 

یہ بات کہی اور اُڑی اپنی جگہ سے

پاس آئی تو مکڑے نے اچھل کر اسے پکڑا

 

بھوکا تھا کئی روز سے اب ہاتھ جو آئی

آرام سے گھر بیٹھ کے مکھی کو اُڑایا

 

 

 

فیچر پوسٹیں

 
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});