https://www.highrevenuenetwork.com/yn6if2b2vi?key=3baa9b1915fea6b70c39fb465ca5cd9e جون 2024 | آپ کی اردو

پیر، 3 جون، 2024

نہ آتے ، ہمیں اس میں تکرار کیا تھی نہ آتے ، ہمیں اس میں تکرار کیا تھی مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی تمھارے پیامی نے سب راز کھولا خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی! تامل تو تھا ان کو آنے میں قاصد مگر یہ بتا طرز انکار کیا تھی کھنچے خود بخود جانب طور موسی کشش تیری اے شوق دیدار کیا تھی! کہیں ذکر رہتا ہے اقبال تیرا فسوں تھا کوئی ، تیری گفتار کیا تھی

0 $type={blogger}

 نہ آتے ، ہمیں اس میں تکرار کیا تھی 


 نہ آتے ، ہمیں اس میں تکرار کیا تھی 

 مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی 


 تمھارے پیامی نے سب راز کھولا 

 خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی 


 بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا 

 تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی! 


 تامل تو تھا ان کو آنے میں قاصد 

 مگر یہ بتا طرز انکار کیا تھی 


 کھنچے خود بخود جانب طور موسی 

 کشش تیری اے شوق دیدار کیا تھی! 


 کہیں ذکر رہتا ہے اقبال تیرا 

  فسوں تھا کوئی ، تیری گفتار کیا تھی 

سر گزشت آدم سنے کوئی مری غربت کی داستاں مجھ سے بھلایا قصہ پیمان اولیں میں نے لگی نہ میری طبیعت ریاض جنت میں پیا شعور کا جب جام آتشیں میں نے رہی حقیقت عالم کی جستجو مجھ کو دکھایا اوج خیال فلک نشیں میں نے ملا مزاج تغیر پسند کچھ ایسا کیا قرار نہ زیر فلک کہیں میں نے نکالا کعبے سے پتھر کی مورتوں کو کبھی کبھی بتوں کو بنایا حرم نشیں میں نے کبھی میں ذوق تکلم میں طور پر پہنچا چھپایا نور ازل زیر آستیں میں نے کبھی صلیب پہ اپنوں نے مجھ کو لٹکایا کیا فلک کو سفر، چھوڑ کر زمیں میں نے کبھی میں غار حرا میں چھپا رہا برسوں دیا جہاں کو کبھی جام آخریں میں نے سنایا ہند میں آ کر سرود ربانی پسند کی کبھی یوناں کی سر زمیں میں نے دیار ہند نے جس دم مری صدا نہ سنی بسایا خطہء جاپان و ملک چیں میں نے بنایا ذروں کی ترکیب سے کبھی عالم خلاف معنی تعلیم اہل دیں میں نے لہو سے لال کیا سینکڑوں زمینوں کو جہاں میں چھیڑ کے پیکار عقل و دیں میں نے سمجھ میں آئی حقیقت نہ جب ستاروں کی اسی خیال میں راتیں گزار دیں میں نے ڈرا سکیں نہ کلیسا کی مجھ کو تلواریں سکھایا مسئلہ گردش زمیں میں نے کشش کا راز ہویدا کیا زمانے پر لگا کے آئنہ عقل دور بیں میں نے کیا اسیر شعاعوں کو ، برق مضطر کو بنادی غیرت جنت یہ سر زمیں میں نے مگر خبر نہ ملی آہ! راز ہستی کی کیا خرد سے جہاں کو تہ نگیں میں نے ہوئی جو چشم مظاہر پرست وا آخر تو پایا خانہء دل میں اسے مکیں میں نے

0 $type={blogger}

 سر گزشت آدم 


 سنے کوئی مری غربت کی داستاں مجھ سے 

 بھلایا قصہ پیمان اولیں میں نے 


 لگی نہ میری طبیعت ریاض جنت میں 

 پیا شعور کا جب جام آتشیں میں نے 


 رہی حقیقت عالم کی جستجو مجھ کو 

 دکھایا اوج خیال فلک نشیں میں نے 


 ملا مزاج تغیر پسند کچھ ایسا 

 کیا قرار نہ زیر فلک کہیں میں نے 


 نکالا کعبے سے پتھر کی مورتوں کو کبھی 

 کبھی بتوں کو بنایا حرم نشیں میں نے 


 کبھی میں ذوق تکلم میں طور پر پہنچا 

 چھپایا نور ازل زیر آستیں میں نے 


 کبھی صلیب پہ اپنوں نے مجھ کو لٹکایا 

 کیا فلک کو سفر، چھوڑ کر زمیں میں نے 


 کبھی میں غار حرا میں چھپا رہا برسوں 

 دیا جہاں کو کبھی جام آخریں میں نے 


 سنایا ہند میں آ کر سرود ربانی 

 پسند کی کبھی یوناں کی سر زمیں میں نے 


 دیار ہند نے جس دم مری صدا نہ سنی 

 بسایا خطہء جاپان و ملک چیں میں نے 


 بنایا ذروں کی ترکیب سے کبھی عالم 

 خلاف معنی تعلیم اہل دیں میں نے 


 لہو سے لال کیا سینکڑوں زمینوں کو 

 جہاں میں چھیڑ کے پیکار عقل و دیں میں نے 


 سمجھ میں آئی حقیقت نہ جب ستاروں کی 

 اسی خیال میں راتیں گزار دیں میں نے 


 ڈرا سکیں نہ کلیسا کی مجھ کو تلواریں 

 سکھایا مسئلہ گردش زمیں میں نے 


 کشش کا راز ہویدا کیا زمانے پر 

 لگا کے آئنہ عقل دور بیں میں نے 


 کیا اسیر شعاعوں کو ، برق مضطر کو 

 بنادی غیرت جنت یہ سر زمیں میں نے 


 مگر خبر نہ ملی آہ! راز ہستی کی 

 کیا خرد سے جہاں کو تہ نگیں میں نے 


 ہوئی جو چشم مظاہر پرست وا آخر 

 تو پایا خانہء دل میں اسے مکیں میں نے سر گزشت آدم 


 سنے کوئی مری غربت کی داستاں مجھ سے 

 بھلایا قصہ پیمان اولیں میں نے 


 لگی نہ میری طبیعت ریاض جنت میں 

 پیا شعور کا جب جام آتشیں میں نے 


 رہی حقیقت عالم کی جستجو مجھ کو 

 دکھایا اوج خیال فلک نشیں میں نے 


 ملا مزاج تغیر پسند کچھ ایسا 

 کیا قرار نہ زیر فلک کہیں میں نے 


 نکالا کعبے سے پتھر کی مورتوں کو کبھی 

 کبھی بتوں کو بنایا حرم نشیں میں نے 


 کبھی میں ذوق تکلم میں طور پر پہنچا 

 چھپایا نور ازل زیر آستیں میں نے 


 کبھی صلیب پہ اپنوں نے مجھ کو لٹکایا 

 کیا فلک کو سفر، چھوڑ کر زمیں میں نے 


 کبھی میں غار حرا میں چھپا رہا برسوں 

 دیا جہاں کو کبھی جام آخریں میں نے 


 سنایا ہند میں آ کر سرود ربانی 

 پسند کی کبھی یوناں کی سر زمیں میں نے 


 دیار ہند نے جس دم مری صدا نہ سنی 

 بسایا خطہء جاپان و ملک چیں میں نے 


 بنایا ذروں کی ترکیب سے کبھی عالم 

 خلاف معنی تعلیم اہل دیں میں نے 


 لہو سے لال کیا سینکڑوں زمینوں کو 

 جہاں میں چھیڑ کے پیکار عقل و دیں میں نے 


 سمجھ میں آئی حقیقت نہ جب ستاروں کی 

 اسی خیال میں راتیں گزار دیں میں نے 


 ڈرا سکیں نہ کلیسا کی مجھ کو تلواریں 

 سکھایا مسئلہ گردش زمیں میں نے 


 کشش کا راز ہویدا کیا زمانے پر 

 لگا کے آئنہ عقل دور بیں میں نے 


 کیا اسیر شعاعوں کو ، برق مضطر کو 

 بنادی غیرت جنت یہ سر زمیں میں نے 


 مگر خبر نہ ملی آہ! راز ہستی کی 

 کیا خرد سے جہاں کو تہ نگیں میں نے 


 ہوئی جو چشم مظاہر پرست وا آخر 

 تو پایا خانہء دل میں اسے مکیں میں نے 

فیچر پوسٹیں

 
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});